ذاتی حفظان صحت۔نوجوان لڑکیوں کے اہم مسائل پر گفتگو لازمی ہے
ایم ایچ۔ڈے2023 کی تقریب میں خواتین کو ذاتی حفظان صحت سے متعلق درپیش
امور زیر بحث آئے
رپورٹ چوہدری امتیازاحمد
خواتین اور خصوصاً نوجوان لڑکیوں کو ذاتی حفظان صحت کے بارے میں ضروری
معلومات او درکار مصنوعات تک رسائی کا فقدان ایک عالمی مسئلہ ہے۔ماہواری
کے حوالے سے معلومات اور حفظان صحت کا بہتر انتظام کرنے کے لئے درکار
اشیاء کے اس فقدان کا نتیجہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں خواتین
خصوصاً نوجوان لڑکیاں کئی طرح کے جلدی امراض کا شکار ہو جاتی ہیں۔اسی طرح
یہ لاعلمی یا عدم رسائی نوجوان لڑکیوں کے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی
راہ میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے اور نفسیاتی طور پر بھی ان پر منفی اثرات
مرتب کرنے کی اہم وجہ بن جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں خواتین
کیلئے ماہواری کے دوران مناسب اور معقول نہ ہونے کو ایک قابل تشویش
معاملہ قرار دیتے ہوئے اس ضمن میں شعور عام کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا
رہا ہے۔
اسی تناظر میں یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے
سماجی صنفی اصولوں کے تناظر میں، ماہواری کے مسئلے پر نوعمروں اور
نوجوانوں کے درمیان طویل مدتی مکالمے کی ضرورت ہے کیونکہ جب مرد/ لڑکے اس
معاملے پر حساس ہوں گے، تو ماہواری کے مسئلے سے متعلق مسائل کو بہتر
طریقے سے سمجھ سکیں گے اور معاشرے میں خواتین کو ان مسائل کے حل میں
رکاوٹ بننے کی بجائے ان کے حل میں معاون ثابت ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج
ماہواری کے انتظام یعنی منسٹرول ہائجین مینجمنٹ (ایم ایچ ایم)کے حوالے سے
صنفی حساسیت پر مبنی آگاہی کو عام کرنا اور اس حوالے سے کاوشوں کا سلسلہ
تیز تر کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس موضوع
کوسکول میں زندگی کی مہارت کی تعلیم کے ساتھ مربوط کیا جانا چاہیے بھی حل
کی جانب اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔
کم ترقی یافتہ اور پسماندہ معاشروں میں ماہواری سے جڑے مسائل اور معاملات
پر بات کرنا ہمیشہ ایک دشوار امر رہا ہے تاہم یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ
ہمارے ہاں خواتین اور لڑکیوں کے حفظان صحت کے حوالے سے اس اہم مسئلے
ماہواری پر اب معاشرے میں گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔اس اہم پیش رفت
کی بدولت ہمیں ان مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی اختیار کرنے میں مدد ملے
گی۔ہمیں اس حقیقت کو بیان کرنا ہو گا کہ ماہواری کے دوران خواتین چاہے وہ
گھر میں ہوں یا ملازمت کر رہی ہوں، ریلیف کیمپوں میں ہوں، سکول میں ہوں
یا کہیں اور، انہیں اس عمل سے بہر صورت گزرناپڑتا ہے۔خواتین کی مشکلات
میں تب مزید اضافہ ہو جاتا جب ماہواری کے دوران حفظان صحت میں معاون
سہولتوں کی عدم موجودگی کے باعث انہیں غیر صحت مند طریقوں کا سہارا لینا
پڑتا ہے۔ نتیجے میں ان خواتین میں ممکنہ جلدی امراض کے ساتھ ساتھ کئی
سنگین بیما ریوں کے حملے کا خطرہ بھی بڑھ جاتاہے۔
شعور و آگاہی عام کرنے کے سلسلے میں طویل مدتی اور پائیدار نتائج کے لیے
یہ ضروری ہے کہ ماہواری کے دوران حفظان صحت کے انتظام سے متعلق ایکشن
پلان کو حکومت کی جانب سے ترجیحی بنیادوں پر مناسب انتظامی اقدامات کے
ساتھ ساتھ بجٹ مختص کرنے کے حوالے سے پیشرفت کی جائے۔ایم ایچ ایم کا
کامیاب نفاذ تعلیم، صحت، سماجی بہبود، دیہی ترقی اور دیگر بڑے محکموں کے
کردار پر بھی منحصر ہے۔اس کے ساتھ ہی میڈیا اور سول سوسائٹی سماجی اصولوں
کو متاثر کرنے اور امتیازی سلوک سے لڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ہمیں اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ عام دنوں کے علاوہ ہر لڑکی
اور عورت کو آفات کے دوران بھی ماہواری کے حوالے سے مناسب معلومات اور
مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آفات کے دوران
خواتین اور لڑکیاں ہمیشہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں سر فہرست ہوتی
ہیں اور ایم ایچ ایم کی پہلے سے ناکافی سہولتیں نا پیدہو جاتی ہیں۔
بہرحال یہ ایک اہم پیش رفت ہے کہ اب کئی معتبر ملکی اور غیر ملکی ادارے
ایم ایچ ایم کے ضمن میں سنجیدہ کاوشوں کو آگے بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔اسی
ضمن میں پاکستان اور خصوصاً صوبہ بلوچستان میں خواتین اور لڑکیوں کو
درپیش ان چیلنجز کے حوالے سے شعور کی بیداری کی ایک کاوش کے طور پر
’گلوبل ایم ایچ ڈے 2023 کی مناسبت سے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
اس اہم تقریب کا اہتما م ایم ایچ ایم ورکنگ گروپ بلوچستان نے جی آئی زی،
آئی آر سی، اسلامک ریلیف، مرسی کور، یونیسیف واٹر ایڈ، اور بی آر ایس پی
سمیت ورکنگ گروپ میں شامل دوسرے ادارروں کیا شتراک سے کیاتھا۔ گلوبل ایم
ایچ ڈے ہر سال 28مئی کو منایا جاتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد ماہواری کے
بارے میں دنیا بھر کی خواتین کو درپیش چیلنجز، متعلقہ پالیسیوں اورمسائل
کے ممکنہ حل کے لیے آگاہی کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں بہتری
اور ہر سطح پر مثبت اقدامات کے لیے آواز اٹھانا ہے۔
ایم ایچ ڈے کی اس خصوصی تقریب میں دوسروں کے علاوہ ورکنگ گروپ کی سربراہ
ڈاکٹر طاہرہ کمال،سابق وفاقی وزیر اور معروف سماجی کارکن روشن خورشید
بروچہ، سیکرٹری ہیلتھ بلوچستان وقاص علی محمود، ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس،
بلوچستان، جواد احمد ڈوگر، ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن زلیخا بلیدی، محکمہ
تعلیم کی نمائندگی کرتے ہوئے عرفان احمد اعوان کے علاوہ جی آئی زی کی
نمائندہ رابعہ بلوچ نے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ روشن
خورشید بروچہ نے اس موقع پر کہا ہے کہ ماہواری اور اس حوالے سے ہمارے
معاشرے میں شعور و آگاہی موجود ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین اور
لڑکیوں کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان سے نمٹنے کیلئے سکولوں اور دوسرے
مقامات پر سہولتوں کو بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تمام متعلقہ
سرکاری محکموں، مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں اور سول
سوسائٹی کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ مل کر خواتین اور لڑکیوں کے لیے
حفظان صحت (ایم ایچ ایم) کو یقینی بنانے والی خدمات اوور سہولتوں تک
رسائی بہتر بنائیں۔ سیکرٹری ہیلتھ وقاص علی محمود نے محکمہ صحت کی کاوشوں
اور اس ضمن میں مختلف ڈونرز اورسماجی اداروں کے تعاون کا ذکر کیا۔ انہوں
نے اس موقع پر اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں اساتذہ، مذہبی
رہنماؤں، دینی مدارس کی خواتین طلبہ، لیڈی ہیلتھ وزیٹرز سمیت معاشرے کے
تمام طبقات کو ایم ایچ ایم کے ضمن میں کاوشوں کا حصہ بنانے کی ضرورت
ہے۔ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس، بلوچستان جواد احمد ڈوگر نے کہا کہ ایم ایچ
ایم خواتین اور لڑکیوں کی صحت مندانہ زندگی کے لیے نا گزیر ہے۔یہی وجہ ہے
کہ آج اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس مسئلے سے جڑے
تمام چیلنجز سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکیں۔انہوں نے کہا کہ خواتین کی ایم
ایچ ایم سے متعلق ضروریات پولیس کے خواتین سٹاف کے لیے بھی اتنی ہی اہم
ہیں جتنی کہ ملک کی باقی خواتین کو اور اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوہئے
انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پولیس کے زیر اہتمام تربیتی عمل میں ایم ایچ
ایم کو بطور اہم موضوع شامل کیا جائے گا۔
اایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن زلیخا بلیدی نے گفتگو میں حصہ ڈالتے ہوئے ہوئے
کہا کہ دیر پا اثر کے لے لیے ان کاوشوں کا جارہ رہنابے حد ضروری ہے جن کا
آغاز ایم ایچ ایم ورکنگ گروپ کوئٹہ نے کیا اور معاشرے میں اس اہم گفتگو
کو عام کرنے کے لیے قابل قدر کاوشیں کیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں
ماہواری اور اس سے جڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے گزشتہ چند برسوں کے
دوران قابل زکر پیش رفت ہوئی ہے تاہم ان کاوشوں کو مزید تقویت دینے کی
ضرورت ہے۔ تعلیمی شعبے کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے عرفان احمد اعوان نے
لڑکیوں کے لیے با سہولت سکولوں کا قیام یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ سکولوں میں نا صرف ایم ایچ کے حوالے شعورعام کرنے کی
ضرورت ہے بلکہ سکولوں کو لڑکیوں کی ایم ایچ ایم کے ضمن میں سہولتوں سے
بھی مزین کرنے کی ضرورت ہے۔
ایم ایچ ایم ورکنگ گروپ کی سربراہ ڈاکٹر طاہرہ بلوچ نے کہا کہ یہ امر
انتہائی خوش آئند ہے کہ خواتین کے اس اہم مسئلے پر بات چیت کی جا رہی ہے
تاہم اب ہمیں عملی اقدامات کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا
کہورکنگ گروپ نے گزشتہ تین برسوں کے دوران اراکین پارلیمنٹ اور میڈیا
سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ساتھ مل کر
شعورو آگاہی عام کرنے کے لئے کاوشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے کہا
گروپ کے اراکین کے تعاون سے مختلف سکولوں میں طالبات اور اساتذہ کے لیے
آگاہی کے سیشنز کا انعقا کیا جبکہ صوبے بھر کی خواتین کی زندگیوں میں
بہتری لانے کے لیے ورکنگ گروپ اپنی کاشوں کا سلسلہ ہر سطح پر جاری رکھے
گا۔
رکن صوبائی اسمبلی شکیلہ نوید اور سینئر پارلیمنٹیرین راحیلہ درانی نے
موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایم ایچ ایم کے فروغ کے لئے
متعلقہ شعبوں کے تحت مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ادار تنہا اتنی بڑی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔
مسئلے کی حساسیت اور ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو مل کر کام کرنے
اور شعور و آگاہی کے سلسلہ کو سرعت کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔موضوع
کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لئے مضمون نویسی اورمختصر دستاویزی
فلموں کے مقابلے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جن کے نتائج کا اعلان تقریب
کے دوران کیا گیا اور کامیاب طلبہ کو انعامات سے نوازا گیا۔ شاہانہ تبسم
اور ڈاکٹرنیلوفر نے ایم ایچ ایم ڈے کی اہمیت سے شرکاء کو آگاہ کرتے ے اس
ضمن میں شعور و آگاہی کے لیے کاوشیں تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔قبل
ازیں ایم ایچ ایم سیکرٹریٹ بلوچستان کی کوآرڈینیٹرشاہانہ تبسم نے گلوبل
ایم ایچ ڈے کی تقریب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے شرکاء کی توجہ دلائی کہ
کہنے کی حد تک تو ہم یہ مصرع اکثرسنتے ہیں کہ ’وجود زن سے ہے تصویر
کائنات میں رنگ‘ لیکن اپنے گرود پیش خواتین کی با اختیاری کے حوالے سے
عملی صورت حال کا جائزہ لیں تو لعلوم ہوگا کہ شاید کم ہی لوگ یہ سوچتے
ہوں گے کہ تصویر کائنات کا یہ حسین رنگ پھیکا۔ مدہم اور کبھی تو سرے سے
معدوم یعنی اپنا وجود ہی کیوں کھو تا جا رہا ہے۔تقریب کے دوران مختلف
شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بھی اپنی آراء کا اظہار کیا اور اس
امر پر زور دیا کہ ہمیں معاشرے کو متوازن، ترقی یافتہ اور خوش حال بنانے
کے لیے خواتین کو درپیش اہم مسائل پر توجہ دینی ہو گی۔ اگر ایسا نہ کیا
گیا تو ہم تصویر کائنات کو اس کے حقیقی رنگوں سے محروم رکھنے کے لیے قصور
وار ٹھہریں گے۔
تقریب کے دوران شرکاء نے اس موقع اعادہ کیا کہ آج کے دن ہم سب کے یہاں
اکٹھے ہونے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم مل کر ان مسائل خصوصاً خواتین کی
صحت اور حفظان صحت کے حوالے سے درپیش ایک بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے
راستہ نکال سکیں۔ شرکاء جن کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا کو بتایا
گیا کہ ایم ایچ ایم پوری دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کو درپیش اہم مسئلہ
ہے۔اس پہلو کو اجا گر کرنے کے لیے کہ جنوبی ایشیاء کے ایک اور ملک نیپال
میں اس چیلنج کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے، تقریب کے شرکاء کوکئی
مختصردستاویزی فلمیں دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا جن کے ذریعے واضح کیا
گیا کہ معاشی طور پر کمزور طبقات میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے نا صرف پر
مشقت کام بڑھ جاتے ہیں بلکہ ان کی حفظان صحت کے حوالے سے ضروریات بھی نظر
انداز ہو جاتی ہیں۔ فلم میں فرسودہ رسوم و رواج کا بھی ذکر کیا گیا کہ کس
طرح حیض کو عورتوں کے عیب کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
ایم ایچ ایم کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لئے ایک پینل ڈسکشن کا
اہتمام کیا گیاتھا۔ اس گفتگو میں ایم ایچ ایم کے بارے میں اہم فکری
معاملات سامنے آئے۔ پینل ڈسکشن کے کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر نیلوفر نے
کہا کہ ایک عام تاثر ہے کہ مذاہب شاید خواتین کے ان حقوق کے حوالے سے
زیادہ بات نہیں کرتے لیکن جب ہم مختلف مذاہب کے عملاء سے بات کرتے ہیں تو
صورت حال اس کے بر عکس معلوم ہوتی ہے۔ تقریب کے دوران شرکاء کو بتایا گیا
کہ جس طرح زندگی کے دوسرے میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابی آگے بڑھنے
کے لیے ایک ممیز کا کام دیتی ہے، اسی طرح ایم ایچ ایم کے لیے شعور و
آگاہی عام کرنے والے کارکنوں کی کامیابیاں بھی انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔
اس ضمن میں مختلف سکولوں سے تعلق رکھنے والی اساتذہ نے کامیابی کے سفر کی
تفصیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلا شبہ آگے بڑھتے ہوئے جب بھی کوئی اہم
کامیابی ہمارے قدم چومتی ہے، ہمارے حوصلوں اور ہمت کو اس سے ایک نئی جلا
ملتی ہے۔شہناز نے کہا کہ اب کمیونٹیز کے لوگ ان کی باتوں کو زیادہ توجہ
اور سنجیدگی سے سنتے ہیں۔
متعلقہ اساتذہ نے تقریب کے شرکاء کو بتایا گیا کہ ایم ایچ ایم کے بارے
میں شعور و آگاہی عام کرنے کی کاوشوں کے دوران ہماری خوش نصیبی رہی کہ
ہمیں والدین کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ تقریب کے دوران اینی میشن کی کسی
بھی پیغام کو کامیابی سے عام کرنے میں ایک اہم طریقے کے طور پر استعمال
کی اہمیت کو اجا گر کیا گیا۔اس بات کی مزید وضاحت کے لیے ایم ایچ ایم سے
متعلق ایک وڈیو دکھائی گئی جس میں خاکوں پر مبنی کرداروں ے ایم ایچ ایم
کے مختلف پہلوؤں کو اجا کرنے کے لیے کھل کر گفتگو کی۔آئی آر سی کی
نمائندگی کرتے ہوئے گلرخ نے اپنی تخلیق کرداہ خوبصورت نظم پیش کی جس میں
ماہواری کے دوران حفظان صحت کے حوالے سے لڑکیوں کو درپیش چیلنجز کو
خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔
ایم ایچ ڈے 2023 کی خصوصی تقریب کے دوران شرکاء کو بتایا گیا کہ جہاں تک
صوبہ بلوچستان میں ایم ایچ ایم کے حوالے سے کاوشوں کا تعلق ہے، اس سفر کا
با قاعدہ آغاز جنوری 2021 میں ایم ایچ ایم ورکنگ گروپ کی بنیاد رکھتے
ہوئے کیا۔ ورکنگ گروپ کو اپنا کام مؤثر انداز سے آگے بڑھانے کے لیے ایک
سیکرٹریٹ کی اشد ضرورت تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب جی آئی زی نے آگے بڑھ
ہماری غیر معمولی معاونت کی جس کی بدولت ورکنگ گروپ کے لیے ایم ایچ ایم
کے صوبائی سیکرٹریٹ کی بنیاد رکھی گئی۔یقینا صوبے میں ایم ایچ ایم کے
بارے میں شعور اور آگاہی عام کرنے کے حوالے سے یہ ایک اہم سنگ میل تھا۔
تقریب میں موجود جی آئی زی کی نمائندہ رابعہ بلوچ نے اس موقع پر پاکستان
اور بلوچستان میں ایم ایچ ایم کے بارے میں شعور و آگاہی عام کرنے کے لیے
اپنے ادارے کی جانب سے کی جانے والی کاوشوں کی تفصیل پیش کی۔انہوں نے
تقریب کے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شرکاء کو بتایا کہ جی آئی
زی نے صوبے کے مختلف سکولوں میں ایم ایچ ایم کے بارے میں آگاہی کے علاوہ
سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے بھی کام شروع کر رکھا ہے اور شرکاء کو یقین
دہانی کرائی کے ان کا ادارہ ایم ایچ ایم کے فروغ کے لئے ہر سطح پر تعاون
کا سلسلہ اسی طرح جاری رکھے گا۔
ہمشہ سلامت رہو بنارس بھائی
جی حاضری دوں گا انشاللہ
جستجو ایمپاورمنٹ کے نام سے الھجرہ کالج زیارت میں بلوچستان شناشی سنڈی کیمپ کا انعقاد
آفاق لیڈرز کلب نے بین لاقوامی اسلامیک یونیورسٹی کے تعاون سے پاکستان کے 23 شہروں،18 یونیورسٹیوں کے 43 طلبا کو بلوچستان شناسی کے لیے مدعو کیا گیا
رپورٹ چوہدری امتیازاحمد
جستجو یوتھ ایمپاورمنٹ کے نام سے بلوچستان کے تاریخی اور سطح سمندر سے 2449 میٹر بلند پرفضا مقام زیارت میں ایک تاریخی کیمپ کا انعقاد کیا گیا اس کیمپ میں پہلی مرتبہ پاکستان کے 23 شہروں،18 یونیورسٹیوں کے 43 طلبا کو بلوچستان شناسی کے لیے مدعو کیا گیا اس کیمپ کا انعقاد ملک بھر کی طرح بلوچستان میں معیاری نصابی کتب شائع کرنے،اساتذہ اور طلبا و طالبات کی سکیل ڈولمپنگ،سکول مینجمنٹ بہتر بنانے کے لیے سرگرم عمل ادارے آفاق لیڈرز کلب نے 1980 میں قائم ہونے والی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام کے شعبہ اقبال انٹرن…
بنارس بھائی اللہ تعالیٰ آپ کو ہمشہ سلامت رکھے ہمشہ خوش رکھے ہمشہ خوشحال رکھے،امین
https://aimtiazch.blogspot.com/2023/06/blog-post.html
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں