منقول
روئیے اچھے برے معاشرے کی عکاس ہوتے ہیں
وسائل معاشرہ کی امانت ہیں اور تمہیں انہیں ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں"
ستر کی دہائی میں اسلام آباد لال کوارٹرز نئے نئے بنے تھے۔ یہاں گیس مفت تھی۔
نصف صدی گزر چکی ہے لیکن میرے ذہن پر نقش ہے کہ ماچس کی تیلی بچانے کیلئے مکین چوبیس گھنٹے چولہا جلائے رکھتے تھے۔
اب چلتے ہیں آفیسرز کالونی اینگرو رحیم یار خان، بجلی مفت تھی اور بیگمات تین چار دن بھی گھر سے جاتی تھیں تو اے سی آن کرکے جاتی تھیں تاکہ واپسی پر گھر ٹھنڈا ملے۔
غریب اور امیر دونوں کے رویے آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں۔
یہ رویے اج بھی ہر سرکاری گھر اور دفتر مین برتے جارہے ہین
دونوں میں کوئی مبالغہ نہیں۔
اب آئیں جرمنی کے اس ریسٹورنٹ میں جہاں کچھ پاکستانی ڈھیر سارا کھانا منگوا کر آدھا چھوڑ کر نکلنے لگتے ہیں تو ایک خاتون گاہک روک کر پوچھتی ہیں کہ اگر کھانا نہیں تھا تو اتنا منگوایا کیوں؟
پاکستانی جواب دیتے ہیں کہ ہم نے پیسے دیے ہیں آپ کو کیا تکلیف ہے ؟
وہ پولیس کو کال کرتی ہیں۔
بوتل کے جن کی طرح پولیس آفیسر بہت جلد پہنچ جاتے ہیں۔
پولیس آفیسر ساری بات سن کر ان پاکستانیوں کو پچاس یورو جرمانہ کرتا ہے اور جو الفاظ بولتا ہے کاش ہمارے ذہنوں پر بھی نقش ہوجائیں۔
اس نے کہا:
"پیسہ تمہارا ہے لیکن وسائل معاشرہ کی امانت ہیں اور تمہیں انہیں ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں"
سارا الزام حکمران اور طاقتور طبقوں پر رکھ کر ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
ہمیں اپنے گریباں میں بھی جھانکنا ہوگا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں