پریس ریلیز
بلوچستان کے اسکولوں میں بلوچی زبان بطور نصابی زبان پڑھائی جائے، بلوچی کے ادبی اداروں کا مطالبہ
کوئٹہ: 13
-07-2024
بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے سرگرم اداروں کا ایک اہم ورکشاپ بلوچی اکیڈمی کمپلکس کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ اس ورکشاپ میں بلوچی اکیڈمی کے عہدیداروں سمیت بلوچستان اکیڈمی تربت، سید ہاشمی ریفرنس لائبریری ملیر، عزّت اکیڈمی پنجگور، نصیر کبدانی لبزانکی دیوان خاران، انسٹیٹیوٹ آف بلوچیہ گوادر اور راسکوہ ادبی دیوان نوشکی کے عہدیداران نے حصہ لیا۔ ورکشاپ میں بلوچی زبان و ادب کی ترقی میں حائل مشکلات اور رکاوٹوں پر بحث و مباحثہ ہوا اور بلوچی کی ترقی و ترویج کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔ مجلس میں شریک ادبی تنظیموں کے سربراہان نے حکومت بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں آباد بلوچی کی زبان، تاریخ، ثقافت اور رسم و روایات کو زندہ رکھنے اور ان کی ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ بدقسمتی سے حکومت کی طرف سے درجنوں ڈمی، نامعلوم اور کاغذی تنظیموں کو ادب کے نام پر لاکھوں روپے کا سالانہ اور دیگرذرائع سے گرانٹ ملتی ہے لیکن جو ادارے برسوں سے بلوچی زبان و ادب کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں اور معاشرہ یا ادبی سوسائیٹیز میں ان اداروں کے ممبران اور کارکردگی سے خوب واقف ہیں ان کے گرانٹ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ المیہ ہے کہ اس سال حکومت بلوچستان نے بلوچی اکیڈمی، بلوچستان اکیڈمی تربت اور عزّت اکیڈمی جیسے اداروں کے مالی گرانٹ میں کٹوتی کی ہے جو کہ کئی برسوں سے بلوچی زبان اور ادب کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں۔ادبی تنظیموں کے سربراہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت بلوچستان ادبی اور ثقافتی اداروں کی مالی گرانٹس کا ازسرنو جائزہ لے اور کارکردگی کی بنیاد پر ایسے اداروں کو مالی گرانٹس فراہم کی جائیں جو کہ معاشرے میں وجود رکھتی ہوں نا کہ ایک شخصی ڈمی کاروباری اداروں کو ادب کے نام عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ دیا جائے۔ بلوچی اکیڈمی کی جانب سے منعقدہ اس ورکشاپ میں بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے ادبی اداروں میں ہم آہنگی اور جدید سائنسی طریقوں کی مدد سے جدوجہد میں مزید تیزی لانے پر زور دیا گیا۔ بلوچی زبان اور لبزانک کی مشکلات اور ان کے حل کے لیے شرکاہ نے تجاویز پیش کیں اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ مشترکہ کوششوں سے بلوچی زبان اور لبزانک کے فروغ کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔بلوچی ادبی اداروں کے سربراہان کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت بلوچستان اسکولوں میں پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک بلوچی زبان کو نصابی زبان کے طور پر پڑھانے کے لیے نصاب تشکیل دے اور میٹرک تک بلوچی کو بطور مضمون پڑھایا جائے۔ اجلاس کے شرکاہ نے کہا کہ بلوچی ادارے ایک متفقہ بلوچی رسم الخط کی تشکیل، ڈکشنریز ، قاموس اور اصطلاحات سازی کے لیے سائنسی بنیادوں پر کام کرنے، بلوچی قدیم شاعری، داستانوں اور لوک ادب کو محفوظ کرنے اور بلوچی زبان کو ڈیجیٹلائزیشن کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور اس کے لیے عملی جدوجہد کا عزم کیا ہے۔ اس ضمن میں ادبی اداروں کے نمائندگان پر مشتمل یک کوارڈینیشن کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی، مشترکہ جدوجہد اور ایک دوسرے کے مدد و تعاون کے ذریعے تجاویز اور فیصلوں پر عمل درآمد کرکے بلوچی زبان کو ترقی سے ہمکنار کیا جاسکے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں