زنگ آلود لیٹر بکس اب ویران رہتے ہیں ۔
اب لیٹر پیڈ نہیں خریدے جاتے ۔
اب خط نہیں لکھے جاتے ۔
پرانے بکسوں میں کپڑوں تلے رکھے محبت نامے نہیں ملتے
مِیلوں دور تک پھیلے ہوئے فاصلے
اب سمٹ کر انگلیوں کی پوروں تک آ گئے ہیں ۔
دلوں کی کیفیات پلک جھپکنے میں سرحدوں پار تک کہہ دی جاتی ہیں ۔
سات سمندر بھی اب درمیان میں حائل نہیں ہوتے ۔
اب نہ وقت کی قید ہے نہ انتظار کی لذت !
لیکن !
پھر یہ اک تِشنگی سی کیوں ہے ؟
محبت کے دعوے دار ہوتے ہوئے بھی
من کھوکھلے سے کیوں ہیں ؟
اظہارِ محبت وہ طمانیت کیوں نہیں بخشتا ؟
محبت کے جواب میں محبت روح کو سرشار کیوں نہیں کرتی ؟
اب جبکہ ہر پل موجودگی میسر ہے تو
محبتیں دیر پا کیوں نہیں ہوتیں ؟
اقدار کیا بدلیں ، محبت کے معانی ہی بدل گئے ۔
اقدار کے بدل جانے سے جذبات کیوں بدل گئے ہیں ؟
تو کیا اقدار اور جذبات کا کوئی گہرا مراسم ہے ؟
اب ڈاکیے کا انتظار نہیں کیا جاتا .
پلک جھپکنے سے پہلے پیغام کوسوں دور تک پہنچ جاتے ہیں ۔
خط کے جواب کے انتظار کی زخمت بھی نہیں اٹھانی پڑتی ۔
لیکن وصل کی جو راحت خطوں سے ملتی تھی ۔
اب وہ راحت نہیں ملتی ۔
اب کوئی عید کارڈ نہیں خریدتا۔
اب عید کارڈ نہیں لکھے جاتے ۔
زنگ آلود لیٹر بکس اب ویران رہتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں