بلوچ تاریخ پر غیر مقامی مصنفین کی تحریریں:
تنقید، خدشات اور حقائق
تحریر: فرید بگٹی
گزشتہ کئی روز سے بلوچ دانشوروں کی جانب سے عمار مسعود کی لکھی گئی کتاب پر طرح طرح کی تنقید و اعتراضات سامنے آئے ہیں، جن میں اکثریت کی یہ رائے ہے کہ چونکہ مصنف نہ تو بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ بلوچ ہیں، اس لیے کتاب میں پیش کیے گئے حقائق ممکنہ طور پر غیر درست یا جانبدار ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے خاص طور پر اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ مصنف کا بلوچ سماج، تاریخ اور تحریکوں کے حوالے سے کوئی براہِ راست تجربہ نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر کو مکمل اعتماد کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا۔
عمار مسعود کی یہ کتاب، جس کا موضوع میر ہزار خان مری کی "مزاحمت سے مفاہمت" تک کے سفر پر مبنی ہے، بلوچ دانشوروں کے حلقوں میں بحث کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ میر ہزار خان مری، بلوچ آزاد پسند تحریکوں کے بانی اور رہنما تھے، جنہوں نے ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کی، لیکن بعد میں مفاہمت کی راہ اپناتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہو گئے۔ اس کتاب میں عمار مسعود نے مری کی اس جدوجہد اور بعد کے سیاسی فیصلوں پر روشنی ڈالی ہے، جسے کچھ بلوچ حلقے تحریکوں کے نظریاتی پہلوؤں کو نقصان پہنچانے کا باعث سمجھتے ہیں۔
اکثریت کی رائے پڑھنے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ بلوچ تحریکوں کے نظریاتی پہلوؤں کو مسعود کی تحریر سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ بلوچ قوم پرست عناصر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس قسم کی تحریریں، جو غیر بلوچ مصنفین کی جانب سے لکھی جائیں، ان کے نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کر سکتی ہیں، جس سے ان کی جدوجہد کے مقاصد اور اہداف غیر واضح ہو سکتے ہیں۔یہ تنقید اس امر پر بھی مرکوز ہے کہ میر ہزار خان مری جیسے جنگجو، جنہوں نے ریاست کے سامنے مشروط یا غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالے اور قومی دھارے میں شامل ہوئے، کو ایک ایسے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے جو تحریک کی روح کو متاثر کر سکتا ہے۔ بلوچ تحریکوں میں ایسے کئی جنگجوؤں کی مثالیں دی جاتی ہیں جنہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر مفاہمت کی راہ اپنائی، اور یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس کتاب کا مقصد ان تاریخی حقائق کو مسخ کرنا یا ان سے سیکھنا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ تاریخ اپنے تمام ابواب کو اپنے سینے میں محفوظ رکھتی ہے، اور چاہے ہم اس بات کو قبول کریں یا نہ کریں، لیکن ہر تحریک کے اندرونی اور بیرونی عوامل کو سمجھے بغیر، اسے مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ عمار مسعود کی کتاب پر تنقید، ایک جانب، ان خدشات کی عکاسی کرتی ہے جو غیر مقامی مصنفین کی تحریروں کے حوالے سے بلوچ قوم پرست حلقوں میں موجود ہیں، اور دوسری جانب، یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا غیر بلوچ مصنفین بلوچ تاریخ اور تحریکوں کو غیر جانبداری سے پیش کر سکتے ہیں؟
بلوچستان کی تاریخ، ثقافت اور سیاست پر لکھی جانے والی کتابوں کو ہمیشہ گہرے تنقیدی جائزے کا سامنا رہا ہے، خاص طور پر جب وہ غیر بلوچ مصنفین کی جانب سے لکھی جائیں۔ اس حوالے سے ایک اہم دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جس قوم کی تاریخ اور ثقافت پر بات کی جا رہی ہے، اس قوم کے افراد کا خود اس پر لکھنا زیادہ موزوں اور مؤثر ہوتا ہے۔ اس تنقید میں ایک بنیادی فکر یہ ہے کہ غیر مقامی مصنفین بلوچ تاریخ اور ثقافت کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہ سکتے ہیں اور ان کی تحریر میں تعصب، غیر دقیق معلومات یا سطحی بصیرت کا امکان ہو سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی تاریخ ان کی زبان و ثقافت میں ہی زیادہ بہتر انداز میں سمجھی جاتی ہے۔ ہر قوم کی ثقافتی نازکیاں، سیاسی جدوجہد، اور روایات کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان پر لکھنے والے مصنفین خود بھی اس قوم کا حصہ ہوں۔ یہ قوم کا داخلی نقطہ نظر ہوتا ہے جو بہتر طور پر اس کے مسائل اور مزاحمت کی تصویر کشی کر سکتا ہے۔ بلوچ تاریخ، جو کہ ایک طویل جدوجہد اور مزاحمت کی کہانی ہے، اس کا درست تجزیہ اور بیان بیرونی مصنفین کے لیے واقعی مشکل ہو سکتا ہے۔تاہم، اس تنقید کے باوجود، غیر بلوچ مصنفین جیسے عمار مسعور اور خالد فرید کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اپنی تحقیق اور لکھنے کی صلاحیتوں کے ذریعے بلوچستان کی سیاست، سماجی مسائل اور تاریخی حقائق کو ایک وسیع قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگرچہ ان کی تحریر میں مقامی نقطہ نظر کی کمی ہو سکتی ہے، لیکن یہ کتابیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بلوچستان کے مسائل عالمی سطح پر اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ غیر بلوچ مصنفین کے لیے بھی یہ موضوع اتنا ہی اہم ہے اور وہ اس کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ تحقیق اور علم کسی مخصوص قوم یا علاقے تک محدود نہیں ہوتے۔ ایک ماہر تاریخ یا سماجیات کسی بھی قوم کی تاریخ اور ثقافت پر تحقیق کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ علمی دیانتداری سے کام لے اور مقامی حوالوں اور تاریخ کو صحیح تناظر میں پیش کرے۔ ہر قوم کی تاریخ کا عالمی تناظر میں جائزہ لینا بھی اہم ہوتا ہے، تاکہ وہ باقی دنیا کے ساتھ جڑ سکے اور اس کے مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔ عمار مسعور اور خالد فرید کی کتاب بلوچستان کی تاریخ اور سیاست کو ایک نیا زاویہ فراہم کرتی ہیں۔ اگرچہ ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ بلوچ نہیں ہیں، لیکن ان کی کاوشوں کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی تحقیق سے بلوچستان کے مسائل عالمی فورمز پر زیر بحث آئے ہیں اور لوگوں کو اس خطے کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا ہے۔ ان کی تحریر ایک ابتدائی قدم ہے، جو مزید تحقیق اور مکالمے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔آخر میں، یہ ضروری ہے کہ مقامی اور غیر مقامی مصنفین دونوں کو موقع دیا جائے کہ وہ کسی بھی قوم کی تاریخ اور ثقافت پر اپنے نقطہ نظر سے روشنی ڈال سکیں۔ ہر تحریر میں کچھ نہ کچھ کمی یا خامی ہو سکتی ہے، لیکن علم اور تحقیق کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ تنقید اور مکالمہ ہی وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے مختلف نقطہ نظر سامن
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں