پیر، 29 جنوری، 2024

جلدی بیماری لشمینیا روز بروز بڑھ رہی ہے

                           جلدی بیماری لشمینیا روز بروز بڑھ رہی ہے


ایم ایس ایف جسے طبیبان بے سرحد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،کو پاکستان  بھر میں اپنی سہولیات پر جلدی بیماری لشمینیا (سی ایل) جسے اردو میں سالدانہ بھی کہتے ہے، کی کیسز میں اضاضے سے تشویش  ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہیں لیکن یہ قابل علاج نظر انداز  کی جانے والی گرم خطے کی   بیماری، جو پاکستان میں صحت عامہ پر بڑا  بوجھ  ہے، سندھ، کشمیراور پنجاب کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔  


  ایم ایس ایف  میں جلدی لشمینیا کے ماہر سوزیٹ کامنک  کا کہنا ہے کہ پا کستان بھر میں ایم ایس ایف کے کلینکس میں آنے والے مریضوں کی تعداد میں گزشتہ سالوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ  تاہم  2022-2023 میں مریضوں میں اضافہ غیر معمولی رہا ہے جب کہ ہمارے خیبرپختونخوا  کی سہولیات میں رجسٹرڈ ہونے والے مریضوں کی تعدادمیں دوگنا  اضاضہ ہوا ہے۔  بنوں میں 95.0 فیصد اضافہ اور پشاور میں 75.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔  بلوچستان میں بھی ایسا ہی رجحان دیکھا جا رہا ہے، مثال کے طور پر کچلاک میں، جو کہ ایم ایس ایف کے تعاون سے چلنے والے تین لیشمیا کلینکس میں سے  ایک ہے، ہم نے پچھلے سال کے مقابلے میں 69.9 فیصد زیادہ کیسز رجسٹر کیے، ساتھ ہی ساتھ جلدی لشمینیا ان علاقوں میں رپورٹ کیا گیا جہاں یہ بیماری عام طور پر موجود نہیں تھی۔     




اس بیماری کے پھیلاؤ کے اہم عوامل زندگی کے خراب حالات ہیں جن میں ناقص حفظان صحت اور رہائش، کوڑا کا مناسب انتظام نہ ہونا، اور بیماری سے متعلق کم جانکاری ، آبادی کی نقل و حرکت اور آب و ہوا میں تبدیلی شامل ہیں  جو سینڈ فلائی  کے مسکن کو متاثر کر رہی ہے۔  سوزیٹ کامنک کا کہنا ہے کہ لشمینیا کے کیسز میں اضافہ اس بیماری اور اس کی روک تھام کے بارے میں معلومات کی کمی کو نمایاں کرتا ہے   جیسا کہ ماحولیاتی فضلہ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا جو کہ ممکنہ سینڈ فلائی  کی افزائش اور آرام کی جگہوں کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے  اور حشرت کش ادویات سے سپرے شدہ مچھر دانی  کا  درست استعمال شامل ہیں۔   

 

 انہوں نے مزید کہا کہ جلد تشخیص اور موثر علاج تک رسائی اس نظرانداز شدہ بیماری پر قابو پانے کا ایک اور طریقہ ہے۔ لشمینیا پینٹا ویلنٹ اینٹی مونیل دوائیوں میگلومین اینٹیمونیٹ یا سوڈیم اسٹیبوگلوکونیٹ کے بنیادی علاج سے قابل علاج ہے۔ یہ علاج تکلیف دہ ہے اور 20 سے 28 دن تک روزانہ انجیکشن پر مشتمل ہوتا ہے۔ تاہم اس علاج تک رسائی ایک چیلنج ہے۔  پاکستان میں، یہ ادویات اکثر صحت عامہ کے مراکز میں دستیاب نہیں ہوتیں اور جب پرائیویٹ مارکیٹ میں مل جاتی ہیں تو یہ مہنگی اور عام طور پر ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ ادویات کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے، صحت کی دیکھ بھال کے لیے بر وقت مرکز صحت سے رجوع کی حوصلہ افزائی، اور صحت کی تعلیم کے ذریعے آگاہی بڑھانے کے علاوہ، لشمینیا کی بہتر ڈیٹا اکٹھا کرنے اور نگرانی کرنے سے  اس بیماری کی زیادہ بامعنی علاج فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔  

 

   2022 سے لشمینیا کے علاج تک رسائی کو بہتر بنانے کی کوشش میں، ایم ایس ایف پاکستان میں پینٹا ویلنٹ اینٹی مونیل دوائیوں کے علاوہ دیگر متبادل تلاش کرنے کے لیے کلینیکل ٹرائل کر رہا ہے۔ کوئٹہ کے دو مراکز میں اب تک 386 مریضوں نے سی ایل کلینیکل ٹرائل میں داخلہ لیا ہے۔ جنوری 2024 میں کوئٹہ میں ایک اور کلینیکل ٹرائل سائٹ کی اجازت دی گئی تھی اور ایم ایس ایف فی الحال ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹیز پاکستان سے پشاور میں ایک اضافی سائٹ کے لیے منظوری کا انتظار کر رہا ہے۔   پانچ سی ایل  مراکز اور ایک سیٹلائٹ ٹریٹمنٹ کلینک کے ساتھ، ایم ایس ایف  بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی وزارت صحت کے تعاون سے مفت لشمینیا کی  تشخیصی اور علاج کی خدمات فراہم کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ صوبہ سندھ کے دادو میں 2022 کے اوائل میں ایم ایس ایف نے لشمینیا کی صحت کی دیکھ بھال کی ضروری خدمات فراہم  کر کے اور لشمینیا  کے انتظام میں تربیت دے کر، لشمینیا کے پھیلاؤ  پر قابو پانے میں وزارت صحت کی مدد کی۔ دسمبر 2023 میں ایم ایس ایف نے تمام سی ایل  سروسز مقامی ہیلتھ اتھارٹیز کے حوالے کر دیں اور  ادویات  بھی عطیہ کیے۔    


مفت طبی دیکھ بھال فراہم کرنے کے علاوہ  بلوچستان میں مراکز  زہنی  صحت کی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں اور علاج اور روک تھام کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے آؤٹ ریچ سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ 2023 میں ایم ایس ایف  نے پانچ وقف شدہ سی ایل  مراکز میں 12,000 لشمینیا کے  مریضوں کا علاج کیا۔ 2008 میں سی ایل  پروگرام شروع کرنے کے بعد سے  51,000 سے زیادہ مریضوں نے ایم ایس ایف سی ایل کی  سہولیات  سے استفادہ حاصل کیا ہے۔   


ختم

ایم ایس ایف پاکستان میں 2008 سے سی ایل کی  خدمات پیش کر رہا ہے۔ اس وقت یہ صحت کے حکام کے ساتھ مل کر پانچ سی ایل  کی  تشخیصی اور علاج کے مراکز چلا رہا ہے: بلوچستان کے ضلع کوئٹہ میں تین: کچلاک ہیلتھ سنٹر، محترمہ شہید بینظیر بھٹو جنرل ہسپتال اور بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور خیبر پختونخواہ میں دو: بنوں کا  خلیفہ گل نواز  ٹیچینگ  ہسپتال  اور پشاور کا  سرکاری نصیر اللہ خان بابر میموریل ہسپتال اور   بڈھ بیر میں رورل ہیلتھ یونٹ میں سیٹلائٹ ٹریٹمنٹ سینٹر بھی شامل ہے.

#Behramlogy

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot