پیر، 22 اپریل، 2024

ماضی کے دریچوں سے ... یادگار لمحات !!!

                    قسط نمبر ۲                                

                                         سیدنصیرشاہ

           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.......مارچ ۱۹۸۰ء میں دوسری جماعت کی درس و تدریس کا آغاز  ھوا تو کلاس ٹیچر عبدالرؤف صاحب تھے

اب سکول میں میرا دوسرا سال تھا اور  میں کچھ سینئر ھو چکا تھا  دوسری جماعت کا کورس بھی کچھ زیادہ تھا تختی قلم دوات کے ساتھ سلیٹ کتابوں و کاپیوں کا اضافہ ھو چکا تھا 

ھمارے گھر کا سکول  سے فاصلہ تقریباً ایک کلومیٹر سے زیادہ تھا اور ھے ھم سکول سے گھر پیدل آتھے جاتے تھے چونکہ سکول بیگ و بستہ اور کتابیں باندھنے کیلۓ کپڑا نہیں تھا اور تختی کتابیں وغیرہ بغل میں لے کے جاتا تھا اکثر اوقات جاتے جاتے جب کتابوں کا وزن کم ھوتا تو پتہ چل جاتا کہ کاپیاں کتابیں بغل سے گر چکی ھوتی اور واپس لوٹ کر کاپیاں کتابیں اٹھاتا تھا

سکول کے زمانے میں جاعت اول ادنی یعنی کچی سے لیکر پانچویں تک سکول و کلاس روم پہنچ کر چپلی اتارتے اس دوران پانی پینے اور تختیاں مٹھانے قدرتی پانی کے چشمے اور ادھی چھٹی کو بغیر چپل کے ننگھے پاؤں گھومتے پھرتےبازار جاتے تھے تختی ٹوٹ جاتی تو موچی غلام علی ہزارہ استاد اور موچی مرزا ہزارہ استاد سے چمڑے کے ٹانکے یا کارپینٹر حاجی خان چاچا سے اسٹیل پتری کے ٹانکے لگوا کر مرمت کرتے تھے یہ بات قابل ذکر ھے کہ چمڑے سے مرمت سستا جبکہ اسٹیل پتری سے مرمت مہنگا پڑتا تھا کیونکہ سال بھر کیلۓ ایک ھی تختی کا حق محفوظ رکھتے تھے

دن میں دو بار تختی لکھتے تھے ایک بار سکول میں اور ایک بار گھر میں۔ 

سکول وردی کالا ملیشا تھا اور سال میں ایک یا پھر کبھی کبھی دو بار وردی ملتی تھی

جماعت دوئم و سوئم کے کمرے مٹھی کے بنے بہت پرانے اور طرز تعمیر سیون ٹائپ کی تھی جن کی حدبندی و تقسیم لکڑی کی الماریوں سے کی گئ تھی ھر دو کلاس رومز میں پڑھائ یا ھونے والی شور کی اواز صاف صاف سنائ دیتی تھی

ایک بات آج بھی میرے لۓ ایک اعلی اعزاز کے کے طور پر یاداشت میں تر و تازگی کے ساتھ محفوظ ھےکہ تیسری جماعت کے استاد محترم شبیرصاحب نے مجھے بلا کر تیسری جماعت کے طلباء سے اردو کا سبق مجھ سے سنوایا اور پڑھوایا اور تمام طلباء کو مجھ سے سزا دلوائ۔

 اس کے علاوہ کلاس میں  کچھ طلباء میں مقابلے کا بیحد رجحان ھوتا تھا البتہ جماعت اول سے جماعت ھشتم تک ھم تینوں (میرا ، مرحوم ناصر داؤد مسیح اور طاہر شاہ "ماسٹر") کا پہلی تین پوزیشنوں پر مقابلہ  ھوتا تھا فرسٹ پوزیشن تو ناصر داؤد ھی کا تھا کیونکہ ان کی رائٹنگ بہت ھی زیادہ خوبصورت اور صاف تھی جبکہ سیکنڈ پوزیشن پر اکثر میرا اور طاہرشاہ کا مقابہ ھوتا تھا مگر سچ کہے تو وہ بھی اکثر طاہرشاہ لیتا تھا مجموعی طور پر  جماعت اول سے ھشتم تک میں تھرڈ  پوزیشن صرف ایک بار فرسٹ اور ۲/۳ بار سیکنڈ پوزیشن اپنے نام کر چکا ھوں نویں کلاس میں کے نتائج میں پوزیشن کا رواج ھی ختم کیا گیا تھا بس سب پاس ۔۔۔۔!!!

البتہ دوسری جماعت کے سالانہ نتائج میں بھی مرحوم ناصر داؤد مسیح ، طاہرشاہ "ماسٹر" اور میں نے حسب سابق بالترتیب پہلی ، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کیں ۔۔۔!!!


مارچ ۱۹۸۱ء میں تیسری جماعت کی درس و تدریس کا آغاز  ھوا تو کلاس ٹیچر شبیرصاحب تھے ۔۔۔ جاری ھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot