یاسمین لہڑی
بلوچستان میں پنجاب دشمن بیانیےپرروایتی سیاست کب تک جاری رہے
گی ؟
- انٹرویو ۔ چوہدری امتیاز احمد
- شعبہ کوئی بھی ہو دل دردمندی سے مامور ہو تو مخلوق خدا سے محبت اور
- احترام کا سلیقہ آ ہی جاتا ہے ۔ اپنے ارد گرد پھیلی بدحالی ،نا انصافی
- ،اونچ نیچ ، مرد و زن کی تفریق ، قوم قبیلے کی تفریق ، امیر غریب کی
- تفریق ، سردار اور عام آدمی کی تفریق ، بے شمار معاشرتی نا ہمواریوں کے
- ماحول میں بطور انسان سب کو برابری کا مقام دلانے کی خواہش دل میں رکھنےوالے بے شمار لوگ رب العالمین کی بنائی ہوئی دنیا میں پھیلی نفرتوں کےکانٹوں کو چنتے چنتے اپنے ہاتھوں کے لہولہان ہونے پر رنجیدہ ہونے کی
- بجائے معاشرے میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے زیر لب
- مسکرا رہے ہوتے ہیں ۔ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے کے باسی ہوتے ہوئےبھی معاشی بدحالی میں زندگی گزارتے لوگوں کو دیکھ کر ان کا درد محسوسکرتے ہوئے ان کے طرز زندگی کو بدلنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ایک عام سے گھرانے کی لڑکی تعلیم کے حصول کے لئے مشکلات کو خندہ پیشانی سے سہتے ہوئےتمام مشکلات کا مقابلہ اس آس پر کرتی ہے کہ میں بدحالی کے شکار لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کی جدوجہد میں کامیابی حاصل کروں گی ۔ صوبائی دارالحکومت سے 40 کلو میٹر واقع شہر مستونگ کے گاﺅں میں آنکھ کھولنے والی اس عام سی لڑکی نے سماج کی دیواروں کو گراتے ہوئے تعلیم کے حصول کا حق حاصل کیا ۔ ابتدائی تعلیم مستونگ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم بلوچستان یونیورسٹی سے آئی آر اے (عالمی تعلقات) میں ماسٹر کیا ۔ سماجی خدمت کا جذبہ لئے میدان عمل میں آنے والی اس باہمت سادہ مگر باوقار خاتون کا نام یاسمین لہڑی ہے جو نیشنل پارٹی کی مرکزی خواتین سیکرٹری ہیں ۔ سماجی خدمت کا جذبہ انہیں سیاست کے میدان میں لے آیا ۔ ایسے ملک میں سیاست کے شعبہ میں آنا جس ملک کا قیام جمہوری طریقے سے عمل میں آیا ہو نام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہو مگر اقتدار اعلیٰ پر زیادہ مدت تک قبضہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے ذمہ داروں کا رہا ہو جہاں اقتدار پر قبضے کے بعد ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی اور دوسرے پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا ہو جہاں سیاست کو عبادت کی بجائے شجر ممنوعہ قرار دینے کی سازشیں زوروں پر ہوں ایسے ملک میں سماجی خد مت کے لئے شعبہ سیاست کا انتخاب کرنا واقعی ہی مشکل فیصلہ ہے ۔ سماجی نا انصافی کے ماحول میں سیاست کو عبادت سمجھنے والی یاسمین لہڑی سماج میں تبدیلی لانے کے سفر کی کس منزل تک پہنچی ہیں
- آئیے ان سے پوچھتے ہیں
یاسمین لہڑییشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالماک بلوچ ،سینٹر طاہر نزنجو، سینٹر اکرم دشتی کے ہمراہ نیشنل
پارٹی کی مرکزی سیکرٹریخواتین یاسمین لہڑی کا گروپ فوٹو
محروموں
مظلوموں کوعلاقائی سرحدوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتاابھی لوگوں میں شعور آگیا ہے پرانی دشمنوں کا بوجھ اب لوگ اٹھانے کو تیار نہیں ہیں
بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو ہائی جیک کیا گیا جو کہ انتہائی خطرناک عمل ہے
بری روایت قائم کی گی ہے کونسلر 40لاکھ سے 50لاکھ میں فروخت ہوے ہیں اس عمل سے ہمارے سماج
میں
اس عمل کو روکا بھی نہیں حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے حقیقی سیاسی
ورکر کو مایوس کیا ہے
سیاسی ورکر کی مایوسی سماجی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے لہذا
حقیقی سیاسی جماعتوں باشعور سماجی رہنماو ¿ں کو مل کر سیاسی عمل میں کو
کراپشن سے آلودہ کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنی چاہے
سول سوسائٹی صحافتی تنظیموں کو آواز اٹھانی چاہے
عوام کی تقدیر کے فیصلوں کا اختیار کراپٹ نمائندوں کو دینا مستقبل کو
تباہ کرنے کے مترادف ہے
بے روگاری مہنگائی کے مشکل حالات کا سامنہ کرنے والے لوگ وقتی فائدے کے
لیے اپنے بچوں کا مستقبل تاریک کر لیں گے ۔سیاسی عمل میں کراپشن کے برے
اثرات بارے عوام کو شعور آگاہی دینا اس وقت بہت ضروری ہے
: حقیقی سیاسی عمل کی تقویت کے لیے طلبا تنظیموں پر پابندی اٹھانا ناگزیر
ہے طلبا ہی سیاست کو کراپشن اور پیسے کے زور پر اہم عہدے لینے والوں کا
راستہ روک سکتے ہیں
مشرف دور میں شروع ہونے والا میر سردار بنانے کا گنونا عمل اب بھی جاری
ہے جس سے دم توڑتا قبائلی نظام دوبارہ طاقت ور بن سکتا ہے مصنوعی طریقے
سے کرپٹ لوگوں کو انجکشن کے زریعے بااختیار بنایا جارہا ہے یہ عمل
بلوچستان کو مزید پسماندگی جہالت گمراہی فرسودہ روایات کی طرف دھکیل رہا
ہے
بلوچستان کے سردار نواب سیاسی عمل کا حصہ بننے کے لیے خود کو مولڈ کررہے
ہیں بہت سے سردار سیاسی پارٹیوں کا حصہ ہیں وہ اپنی قبائلی حثیت کو پارٹی
کے فیصلوں کے سامنے سلنڈر کررہے ہیں جو کہ انہتائی مثبت پیش رفت ہے
مگر جب مصنوعی طریقے سے جعلی سردار بنانے کا عمل تیز ہوگا تو اپنی قبائل
حثیت سلنڈر کرنے والے سردار دوبارہ قبائل نظام سے رجوع کرنے پر مجبور
ہونگے یوں حقیقی سیاسی جدو جہد کرنے والوں کی جدو جہد سے تبدیل ہوتا سماج
دوبارہ قدیم پوسیدہ سماج کی چادر اوڑھ لے گا جن سرداروں نے حالات اور وقت
کے تقاضوں کو سمجھتے ہوے یہ تسلیم کیا کہ ہم مار دھاڑ زور زبردستی سے اب
لوگوں کو اپنے تابع نہیں رکھ سکتے اس لیے انہوں نے اپنی سوچ کو بلدتے ہوے
سیاسی پارٹیوں میں شمولیت کی اسے سردار اپنے فیصلوں کا اشارے نو جائزہ
لینے پر مجبور ہونگے ہمارے نوجوان جو شارٹ کٹ میں تمام منزلیں طہ کر لینا
چاہتے ہیں وہ اس نئی وبا کا زیادہ شکار بن رہے ہیں جو بڑا المہ بن چکا ہے
: حقیقی سیاسی عمل کی تقویت کے لیے طلبا تنظیموں پر پابندی اٹھانا ناگزیر
ہے طلبا ہی سیاست کو کراپشن اور پیسے کے زور پر اہم عہدے لینے والوں کا
راستہ روک سکتے ہیں
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک کے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں خواتین
کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار
کابھرپور موقع دیا گیا۔سیاسی ورکر خواتین کو بین الصوبائی اور بین
لاقوامی سڈی ٹورز پر بجوایا گیا
نیشنل پارٹی گراس روٹ سے سیاسی ورکرز خواتین کو میرٹ پر اسمبلی میں
لائی۔دوسری سیاسی پارٹیاں بھی اب خواتین کو پارٹی عہدوں اور سنٹرل
کیمٹیوں میں لارہی ہیں
بیوی کی مشترکہ کوششوں کا ثمر کیا ملا؟
سماج میں عورت کی حالت میں کتنی بہتری دیکھتے ہیں ؟
، 25 سالہ سیاسی جدو جہد کے بعد بلوچستان کی عورت
کی زندگی میں کیا تبدیلی دیکھائی دیتی ہے ؟
جواب ، مجھے یاد ہے کہ میں نے کم عمری میں سوشل ڈولمپمنٹ اور سیاسی عملی
جدو جہد کا آغاز کیا تھا مجھے خود بھی اتنی سمجھ بوجھ نہیں تھی حالات کا
سامنا کرتے کرتے زمانے نے بہت کچھ سکھا دیا آستہ آستہ عتماد بڑھتا گیا تو
سماج میں مثبت تبدیلی کے لیے اپنی جدو جہد اچھی لگنے لگی باوجود مشکلات
کے اس کام میں خوشی اور امیدیں بڑھنے لگی اس وقت خواتین کا سیاسی عمل کا
حصہ بنا درکنار کسی سے بات کرنا بھی مشکل ہوتا تھا بہت زیادہ میعوب سمجھا
جاتا تھا،ہماری اور ہم سے پہلے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے خواتین جن
کو اپنے گھر والوں کی سپورٹ حاصل رہی تھی جنہوں نے بہت کٹھن حالات کا
سامنے کرتے ہوے آج کی خواتین کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں راستے ہموار
کردیے ہیں
اس وقت بلوچستان میں خواتین کی سیاسی سماجی حثیت ایڈیل تو نہیں مگر کافی
حد تک اطمینان بخش ہے
بلوچستان کا قبائلی روایتی سماج اب بھی خواتین کے گھروں سے نکل کر عملی
زندگی میں آنے کا مخالف ہے
خواتین کی موجودہ سماجی سیاسی معاشی خود مختاری میں بنیادی اہم کردار
اسمبلیوں میں 33فیصد مخصوص سیٹوں کا بھی رہا ہے۔کاش یہ بنیادی اہمیت کا
کارنامہ کسی سیاسی پارٹی نے کیا ہوتا لیکن نہیں خواتین کی ایک بڑی تعداد
کو ایوانوں میں آنے کا موقع ایک ڈیکٹیٹر نے دیا شروع میں تو صدیوں سے
حکمرانی کرنے والوں نے اپنی بیگمات اور بہنوں بیٹیوں کو اسمبلیوں کا حصہ
بنایا جاتا رہالیکن جو خواتین سیاسی ورکر کی حیثیت سے اسمبلیوں میں آئیں
انہوں نے ان تھک محنت سے اسمبلی کے قوانین کو چانچا رول آف بزنس کو سیکھا
خواتین مخالف قوانین میں ترامیم کروائی ہماری اسمبلی نے ریکارڈ قانون
سازی کی۔
سوال ۔ ایسے معاشرے میں جہاں تعلیم اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کو برا
سمجھا جاتا ہے عام گھرانے کی لڑکی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں کس طرح کامیاب
ہوئی ؟
جواب ۔ تعلیم کی اہمیت سے انکار کرنے والی قومیں دنیا میں بدحالی اور
پسماندہ قوموں کے نام سے پکاری جاتی ہیں ۔ ہمارے سماج میں تعلیم کے حصول
کا حق بھی مخصوص طبقات کو ہی حاصل رہا ہے ۔ عام لوگوں اور خصوصاً لڑکیوں
کو تعلیم حاصل کرنے کا حق لینے کے لئے بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے
خاندان کے لوگوں کی بے شمار باتیں سہنا پڑتی ہیں ۔ بے شمار مشکلات کے
باوجود میں نے تعلیم حاصل کی ۔ تعلیم ہی وہ زینہ ہے جسے استعمال میں لاتے
ہوئے میں بلوچستان اسمبلی کی رکن بنی اور عوامی مسائل کو ایوان میں پیش
کرنے کے قابل ہوئی ہیں ۔
ہم نے اورہم سے پہلے گھروں سے نکل کر عملی میدان میں قدم رکھنے والی خواتین نے آج کی خواتین اور بچیوں کے لیے میدان ہموار کرنے کے ساتھ ان کی راہوں سے اپنے ہاتھوں سے کانٹے چنے ہیں تبی تو آج ملک میں پسماندہ سمجھے جانے والے بلوچستان کی خواتین زندگی کے تمام شعبوں میں کارہاے نمایاں سر انجام دے کر نہ صرف اپنے والدین خاندان کی معاشی اور سماجی حثیت میں اضافہ کررہیں ہیں بلکہ بلوچستان اور پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں
سوال ۔ تعلیم آپ نے عالمی تعلقات کے شعبہ میں حاصل کی جبکہ عملی زندگی کا
آغاز سماجی خدمت اور بعد ازاں نیشنل پارٹی مےں شامل ہو کو عوامی مسائل حل
کرنے کا آغاز کیا ؟
جواب ۔ تعلیم انسان اور حیوان میں فرق کو واضح کرتی ہے ۔ تعلیم کسی بھی
شعبہ میں حاصل کی جائے عام انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتی
ہے ۔ مقامی اور ملکی سیاست کرنے والوں کے لیے عالمی تعلقات عامہ کے شعبے
میں حاصل کردہ تعلیم مختلف سماجوں کو سمجھنے میں مدد دہتی ہے ہماری بد
قسمتی اور ہماری پسماندگی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ آبادی کے 51 فیصد حصے
(عورتوں) کو معاشرتی ترقی میں حصہ ڈالنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی ۔
شہروں میں معاشی مشکلات کے باعث عورتوں کو مردوں کے ساتھ مل کر گھروں سے
نکل کر کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے مگر دیہی علاقوں میں ابھی تک لڑکیوں
کی تعلیم کو برا سمجھا جاتا ہے ۔
سوال ۔ سیاست میں آنے کا مشورہ کس نے دیا اور نیشنل پارٹی میں شمولیت کب
اختیار کی ؟
جواب ۔ سماجی خدمت کے شعبے میں کام کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں سے
ملاقاتیں ہوتی رہتی تھی ۔ نیشنل پارٹی کے منشور ، قیادت کے چناﺅ کے طریقہ
کار اور عوامی مسائل کو عوام کی مشاورت اور شمولیت کے ذریعے حل کرنے کے
طریقہ کار نے مجھے متاثر کیا ۔ نیشنل پارٹی میں قبائلی اور سماجی حےثیت
کی بجائے کارکنوں اور خصوصاً خواتین کے انتخاب اور سماجی خدمات کو دیکھتے
ہوئے پارٹی عہدے دئیے جاتے ہیں ۔ میرے سماجی ورک اور پارٹی کے پیغام کو
عوام تک پہنچانے کے طریقہ کار کو پارٹی قیادت نے ہمیشہ سراہا ہے ۔
سوال ۔ نیشنل پارٹی عام لوگوں کی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے نواب اور
سرداروں کی موجودگی میں یہ دعویٰ کس حد تک سچا ہے ؟
جواب ۔ نیشنل پارٹی میں مکمل جمہوری نظام رائج ہے ہمارے کنونشن میں خفیہ
رائے شماری کے ذریعے عہدیداروں کو منتخب کیا جاتا ہے ۔ جو نواب اور سردار
پارٹی میں شامل ہیں عام ورکر اور دیگر عہدیداروں کی طرح مرکزی کونسل کے
سامنے جواب دہ ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں پارٹی کے نواب اور سردار بھی اپنی
نوابی سرداری کے مقام کو سرنڈر کر کے پارٹی میں شامل ہوئے اور پارٹی
فیصلوں کا احترام کرتے ہیں ۔ پارٹی کے اندر برابری کی بنیاد پر سب کو ان
کی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے ۔
سوال ۔ نیشنل پارٹی کی مرکزی سیکرٹری خواتین کا عہدہ کب ملا ؟
جواب ۔ مشرف دور میں
اسمبلیوں میں خواتین کو 33 فیصد مخصوص نشستیں دینے
کے قانون کی منظوری سے قبل نیشنل پارٹی میں عورتوں کو پارٹی کے عہدے ان
کی صلاحیتوں کی بنیاد پر دینے پر عملدرآمد شروع ہو چکا تھا ۔ 1999 ءمیں
مرکزی سیکرٹری خواتین منتخب ہوئی اب تک ہونے والے تمام کنونشنز میں میری
کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے دوبارہ مینڈیٹ دیا گیا ہے
سوال ۔ 1999 ءسے پارٹی میں اہم عہدے پر کام کرنے کے باوجود اسمبلی کی رکن
2013 ءکے الیکشن میں نامزد کیا گیا اس بارے میں کیا کہیں گی ؟
جواب ۔ 2008 ءکے انتخابات میں قوم پرست پارٹیوں نے انتخابات کا بائیکاٹ
کیا تھا گو کہ اس فیصلے کو بعد ازاں غلط اور غیر جمہوری قوتوں کو کھلی
چھٹی دینے کے مترادف تسلیم کرتے ہوئے غلطی کا اعتراف کیا گیا اسی دور کے
غیر جمہوری لوگوں نے اسمبلی اور وزارتوں میں عوام کی ترقی و خوشحالی کے
لئے این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والے اربوں روپے کے فنڈز کو اپنی فلاح
اور خوشحالی پر خرچ کیا ۔ سابقہ دور حکومت کے 64 کے ٹولے نے جتنا نقصان
بلوچستان کو پہنچایااتنا تو اس سے قبل کے 55 سالوں میں بھی نہیں پہنچایا
گیا ۔
2013 ءکے الیکشن میں پارٹی نے میری صلاحیتوں کو مزید آزمانے کے لئے مجھے
اسمبلی کی رکنیت کا اعزاز بخشا جسے میں ایک فرض اور عوام کی جانب سے دی
جانے والی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنے کی کوشش اسمبلی کی مدت ختم ہونے تک
ادا کرتی رہی ہوں ۔
سوال ۔ مستونگ کے عام گھرانے کی عام سی لڑکی سماج سے لڑتے ہوئے اسمبلی
فلور تک پہنچی ۔ آپ کی سیاسی جدوجہد کو عام عورت کے مسائل اور اس کی حالت
میں بدلاﺅ سے کیسے جوڑیں گی ؟
جواب ۔ میں سمجھتی ہوں ۔ سیاست عبادت ہے ۔عوام کی فلاح کے لئے مشکل حالات
کا سامنا کرنے کا نام ہی حقیقی سیاست ہے ۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ سیاست
کے شعبے کو عوام کی فلاح کی بجائے اپنی فلاح اور ترقی سمجھ کر لوٹ مار
،کرپشن کرنے کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے۔ سیاستدانوں کے قول اور فعل میں
تضاد اور کمزور کردار کی وجہ سے آج سیاست کو عبادت کی بجائے جھوٹ فراڈ
کرپشن کا نام دیا گیا ہے جو انتہائی قابل افسوس مقام ہے ملکی اور خصوصاً
بلوچستان میں جو با اثر طبقات اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں ان کی کرپشن
لوٹ مار اقرباءپروری کی وجہ سے سیاست جیسا معزز شعبہ بھی بدنام ہو چکا ہے
۔ میں سمجھتی ہوں ملک کے اقتدار پر طویل عرصہ قابض رہنے والے ڈکٹیٹر ،
مذہب کے نام پر مفادات کی سیاست کرنے والوں اور قبائلی نوابوں ،سرداروں
،جاگیرداروں ، سرمایہ داروں کے ٹولے نے سیاست کو اپنے کردار اور سوچی
سمجھی سازش کے تحت شجر ممنوعہ بنانے کی کوششیں کی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ
مختلف پبلک مقامات پر جہاں منشیات کے استعمال کو منع قرار دینے کے بارے
میں واضح الفاظ میں پوسٹر لگے ہوتے ہیں ۔ وہی سیاسی گفتگو کرنے کی ممانعت
کا نوٹس بھی آویزاں ہوتا ہے یہ جان بوجھ کر عوام کو غیر سیاسی سوچ کی راہ
اور سیاست کے ذریعے اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے سے روکنے کی گھناﺅنی
سازش ہے ۔ سیاست کے ذریعے عوام کو اپنے حقوق اور فرائض کی آگاہی حاصل
ہوتی ہے ۔ قانون اور آئین میں عام آدمی کو بطور شہری کیا کیا سہولیات اور
حقوق حاصل ہیں ۔ میں سمجھتی ہوں بلوچستان کی عورتوں کو سیاسی میدان میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے ۔ بلوچستان کی عورتیں کی معاشی ، سماجی حالت
بہت خراب ہے ۔ زیادہ تر کو صرف اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا سبق پڑھایا
جاتا ہے ۔ سہولیات اور حقوق کے شعور کو عورتوں سے دور رکھا گیا ہے ۔ صوبے
کی 50 فیصد آبادی کو اپنی حالت بدلنے کے لئے عملی سیاست میں انا ہو گا ۔
وقت کے ساتھ ساتھ حکمران طبقات کے پھیلے ہوئے منفی پروپیگنڈہ اور عوام کو
ترقی و خوشحالی کے عمل سے دور رکھنے کے منصوبے ناکام ہو رہے ہیں ۔
عورتوں کی زندگی میں انقلاب لانے کے لئے عورتوں کو سیاسی عمل کا حصہ
بنانا ناگزیر ہے ۔ گراس روٹ لیول پرسیاسی عمل میں حصہ لئے بغیر عورتوں کی
حالت کو بدلنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اسمبلیوں میں بیٹھنے والی الیٹ کلاس
کی خواتین جو عورتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے ۔ یہ دعویٰ جھوٹا ہوتا
ہے کیونکہ بھوک کی تکلیف سے گزرے بغیر بھوکے پیٹ سونے والی عورتوں اور
بچوں کی مشکلات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔ بلوچستان کے دور دراز
علاقوں میں جا کر میں نے عورتوں کے درد کو محسوس کیا ہے ۔ عام مڈل کلاس
سے تعلق ہونے کے باعث جہاں بھی گئی عورتوں نے مجھے اپنی مشکلات اور مسائل
کے بارے میں دل کھول کر بلا جھجک آگاہ کیا ۔
سوال ۔ بلوچستان کے سماج میں جہاں مردوں کا سیاسی عمل میں شریک ہونا مشکل
تھا وہاں ایک عورت قبائلی رسم و رواج کی دیواروں کو گراتی ہوئی سیاسی
پارٹی میں شامل ہوئی اور اسمبلی کی ممبر بن کر عام عورت کی حالت بدلنے کی
بات کرتی ہیں ۔ جدی پشتی سماج کے ٹھیکیداروں نے کیسے برداشت کیا ؟
جواب ۔ قبائلی ،جاگیرداری نظام نے عوام کو غلام بنا کر رکھنے کے لئے
سیاست کو معیوب عمل قرار دینے کی بہت کوششیں کیں مگر بدلتے وقت نے اجارہ
داری کی تمام کوششوں کو ناکام کر دیا ۔ بچپن سے گھریلو سطح پر پدرانہ سوچ
کے معاشرے سے اپنے جینے کا حق لینے کی جدوجہد نے اتنی مشکلات کا سامنا
کیا کہ اب مشکلات سے مقابلہ کرتے ہوئے مزا آنے لگا ہے ۔ میری سوچ کو عملی
جدوجہد کی پیروی کرتے ہوئے بے شمار سیاسی ورکرز خواتین سیاسی پارٹیوں میں
شمولیت اختیا رکر رہی ہیں ۔ نیشنل پارٹی جو روشن خیال اور تعصب سے پاک
سیاست کرنے والی پارٹی ہے قیادت کی عوام دوستی اور حکومتی کارکردگی سے
متاثر ہو کر پڑھی لکھی خواتین شمولیت کررہی ہیں ۔ پارٹی میں زندگی کے
مختلف شعبوں میں فرائض اد اکرنے والی خواتین پارٹی میں شامل ہو کر سیاسی
عمل کا حصہ بن چکی ہیں ۔
سوال ۔ بلوچستان میں خواتین کا الیکشن کے ذریعے اسمبلی تک پہنچنے کا خواب
کبھی شرمندہ تعبیر ہو سکے گا ؟
جواب ۔ موجودہ حالات میں تو ممکن نہیں ہے ۔ بے شک نیشنل پارٹی خواتین کو
ٹکٹ دینے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے مگر مردوں کی اجارہ داری کے صدیوں
پرانے سماج میں کسی عورت کا انتخابات کی مشکلات کا سامنا کر کے کامیاب
ہونا ابھی تک تو نا ممکن ہی لگتا ہے ۔ سیاسی نظام چلتا رہا تو ایسا وقت
ضرور آئے گا ۔ سماج میں موجودہ سوچ میں تبدیلی کیسے ممکن ہے کہ ایک سردار
نواب یا جاگیرداروں کے بیٹے کے مقابلے میں ایک عورت الیکشن لڑنے کی ہمت
کرے اور جیت بھی جائے ۔ عام مرد کے مقابلے میںبھی کسی عورت کو ووٹ نہیں
ملے گا ۔ میرے خیال میں شعوری عمل کو تیز کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عوام کی
سوچ میں انقلابی تبدیلی لائی جاسکے
سوال ۔ بلوچستان کے دارالحکومت پر لاکھوں کی تعداد میں پڑوسی ملک کے
مہمانوں کے قبضے کو کس نظرسے دیکھتی ہیں ؟
جواب ۔ کسی بھی صوبے کے دارالحکومت کو جدید ترین شہری سہولیات سے آراستہ
ہونا چاہئے ۔ مگر بد قسمتی سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی بدحالی میں
جہاں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کا عمل دخل ہے وہاں سابقہ اور موجودہ
برسرے اقتدار والوں کی عدم دلچسپی کا بھی عمل دخل ہے کہ ماضی کا لٹل لندن
آج دنیا کا گندا ترین شہر بن چکا ہے ۔ آبادی کے دباﺅ کی وجہ سے شیری
سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے،
افغان مہاجرین کی کیمپوں سے کوئٹہ شہر منتقلی کے عمل میں سرکاری اداروں
کے ذمہ دار بھی ملوث رہے ہیں ۔ دارالحکومت کے شہریوں کے لیے فراہم کردہ
سہولیات پر افغان مہاجرین نے اپنے کالے دھن کے زور سے قبضہ کر لیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ شہر میں پینے کا پانی تک عام آدمی کو دستیاب نہیں ۔
بلوچ پشتون اور کوئٹہ کے قدیم رہائشیوں نے افغان مہاجرین کی وجہ سے بہت
تکلیفوں اور مشکلات کا سامنا کیا ہے ۔ اس مشکل سے نکلنے کے لئے مرکزی سطح
پر سخت واضح پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے اور زبردستی کے مہمانوں
جنہوں نے میزبانوں کے گھروں پر قبضہ کر لیا ان کو واپس افغانستان بھجوانے
کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بڑا چیلنج ہے جس سے عہدہ برآ
ہوئے بغیر بلوچستان کی پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے
۔ صوبے میں دہشت گردی اور جرائم کی شرح کو ختم کرنے کے لئے بھی افغان
مہاجرین کا واپس اپنے ملک جانا ناگزیر ہو چکا ہے اب افغانستان میں امن
قائم ہوچکا ہے اور ترقی کا عمل بھی شروع ہے تو افغان حکومت کو اپنے
شہریوں کو واپس بلوانا چاہے میں حیران ہوں کہ بہت سے وٹس ایپ گروپوں میں
افغانستان میں ہونے والی ترقی خوشحالی کی ویڈیوز شیر کی جاتی ہیں ایسی
صورت میں پھر افغانی ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتے 45 برسوں سے بوجھ بنے یہ
لوگ ہمارے ملک کو برا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں اور افغانسات کے جھنڈے
ہمارے ملک میں لہراتے دیکھائی دیتے ہیں قومی تہواروں اور دنوں کے مواقع
پر افغان محاجرین کی ہلڑ بازیاں سب کو پریشان کرتی ہیں ۔
سوال ۔ 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو منتقل اختیارات کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں ؟
جواب ۔ 18 ویں ترمیم پاس کرنے والوں نے بلوچستان سمیت دیگر چھوٹے صوبوں
کو با اختیار بنانے کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو خود اٹھانے کی راہ دکھائی
ہے ۔ انتہائی اچھا فیصلہ کیا گیا ترمیم کے پاس ہونے سے قبل تمام
پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیا گیا ۔
نیشنل پارٹی کی قیادت نے بھرپور حصہ لیا اور ترمیم کی منظوری تک اجلاسوں
میں شرکت کرتی رہی ۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کی حقوق کی جدوجہد کا ثمر
18 ویں ترمیم کی شکل میں مل چکا ہے ۔
18 ویں ترمیم بلوچستان کے مسائل کا مکمل حل نہیں ۔ تاہم مسائل کے حل کی
طرف پیش قدمی ضروری ہے ۔ 18 ویں ترمیم پر جس طرح عملدرآمد کرنے کی ضرورت
تھی وہ ابھی نہیں ہو سکی ۔ جتنے بھی ادارے مرکز کے اختیار سے نکل کر صوبے
کے پاس ہیں ائے ہیں مکمل طور پر فعال نہیں ہو پائے ۔ خصوصی طور پر
بلوچستان کے مرکزی ملازمتوںکے کوٹے پر عملدرآمد کرنے کا عمل انتہائی سست
روی کا شکار ہے بلکہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی بیروزگاری ہے ۔
نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچا کر صوبے کی ترقی و خوشحالی کے
لئے استعمال میں لانے کے لئے ضروری ہے کہ روزگار کے مواقع فراہم کئے
جائیں ۔ بیروزگاری کے خاتمے سے بلوچستان میں جاری خلفشار کو کم کرنے میں
مدد مل سکتی ہے ۔ صوبے کے حصوں میں آنے والے محکموں کو فعال کرنے میں
حائل مسائل کو حل کرنے میں وفاقی حکومت کو صوبوں کی مدد کرنا ہو گی ۔
کیپسٹی بلڈنگ اور مالی وسائل کی فراہمی کے بعد 18 ویں ترمیم کے ثمرات
عوام تک نہیں پہنچائے جا سکتے ۔ صرف ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی سے
اداروں کی کارکردگی بہتر نہیں بنائی جا سکتی ۔
سوال بطور مرکزی سیکرٹری خواتین کے بلوچساتن کے کتنے اضلاع میں خواتین کو
پارٹی نٹ ورک کا حصہ بناچکی ہیں؟
جواب ،میں نے بلوچستان کے تمام اضلاع میں خواتین کو ضلعی سنٹرل کمیٹیوں
کا حصہ بنا دیا ہے اب ہر ضلع میں خواتین سیکرٹری کے عہدے پر ایک سیاسی
ورکز نامزد ہوچکی ہے وہ ضلعی سنٹرل کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کرتی ہے
اور ضلع کی خواتین کے مسائل کے ساتھ ان کے حل کی تجاویز کمیٹی میں ہیش
کرتیں ہیں پارٹی کی کوشش ہے کہ خواتین کو صرف خواتین وینگ کے ڈبے میں
محدود نہ کیا جاے بلکہ ہر خاتون سیاسی ورکر مرد سیاسی ورکر کی طرح اپنے
ارد گرد پارٹی کا پیغام عام کرتے ہوے سیاسی شعور اور بطور شہری اپنے
آئینی حقوق سے آگاہی عام کرے۔ہماری کوشش ہے کہ ضلعی سطح پر خواتین کی
کابینہ بھی بنائی جاے۔ہر ضلعی سنٹرل کمیٹی میں چار خواتین ممبران ہیں اسی
طرح صوبائی سنٹرل کمیٹی میں 5خواتین ممبر ہیں ،پارٹی کے آہنی ڈھانچے میں
خواتین کی زیادہ شمولیت کے لیے ترمیم کی جاری ہیں۔نیشنل پارٹی خواتین کو
مین سٹریم میں لا کر انہیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کاموقع فراہم
کرنا چاہتی ہے۔
ہماری جدو جہد مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ چل کر سماج کے کمزور طبقات کی
زندگی میں بہتری لانا ہے نیشنل پارٹی خواتین کو خیراتی سیٹوں اور منصبوں
کی بجاے سیاسی میدان میں عملی جدو جہد سے مقابلہ کر کے اسملیوں تک پہچانا
چاہتی ہے الحمدللہ نیشنل پارٹی کی خواتین نے حقیقی جمہوری جدو جہد میں
ہمشہ متحرک کردار ادا کیا ہے پی ڈی ایم کے اجلاسوں کی طرح جلسوں کی
کامیابی میں بھی نیشنل پارٹی کی خواتین نے میری قیادت میں بھرپور شرکت کی
حالانکہ پی ڈی ایم کی دوسری پارٹیاں جلسوں میں خواتین کو لانے سے کترا
رہی تھیں مگر میں نے نیشنل پارٹی کے دفتر میں پی ڈی ایم کی تمام پارٹیوں
کی خواتین کئی کے اجلاس بلواے ہمارے اجلاسوں میں طہ کی جانے والی حکمت
عملی پر اتحادی جماعتوں کی خواتین بھی متفق تھی کلثوم نواز کے ایوب
اسٹیڈیم کے جلسے میں پی ڈی ایم کی تمام خواتین کے لیے الگ بیٹھنے کی جگہ
رکھی گی خواتین کی نمائندگی بھی اچھی رہی : ان دنوں حکومتی سختیوں اور
امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے مرد بھی سیاسی اجتماعات میں آنے سے
کتراتے تھے اسی لیے پی ڈی ایم کی جماعتوں نے خواتین کو احتجاجی جلسوں میں
نہ لانے کا فیصلہ کیا تھا مگر ہمارے اجلاسوں میں طہ کی جانے والی حکمت
عملی اور ہماری تجاویز کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ڈی ایم کی صوبائی قیادت
کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑھا خواتین کی شرکت سے پی ڈی ایم کے ا حتجاجی
جلسے کامیاب ہوے۔
جب نواز شریف مولانا فضل الرحمان جیسے مضبوط طاقت ور لوگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز بلند کرتے ہوے ہمارے موقف کی حمایت کرتے ہیں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے ہماری قوت میں اضافہ ہوتا ہے
مسائل دیگر مشکلات کا سامنے کرتے ہوئے اپنا وقت پیسہ رضاکارانہ طور پر سماجی
انصاف کے لیے خرچ کرنا ، حقیقی سیاسی ورکز کا مشن ہوتا ہے، سیاسی ورکر کی کمائی ضمیر کا زندہ ہونا ہے ہم سمجھتے ہیں اتنی جدو جہد کے بعد بھی ہمارا ضمیر مطمئن
ہے کہ ہم جو کا م کررہے ہیں یہ پیغمبروں والا کام ہے اولیا اللہ کا کام
ہے ، سماج میں انصاف برابری محبتوں کے فروغ کے لیے ہونے والی چھوٹی سے
تبدیلی ہماری کامیابی ہے ہمارا یقین مذید پختہ ہوتا ہے کہ ہم درست سمت
میں جدو جہد کررہے ہیں جب بھی ملک صوبے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ قوتوں کو
کامیابی ملتی ہے ہمیں خوشی ہوتی ہے جب نواز شریف مولانا فضل الرحمان جیسے
مضبوط طاقت ور لوگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز بلند کرتے ہوے ہمارے موقف کی
حمایت کرتے ہیں تو
باغ باغ ہو جاتا ہے ہماری قوت میں اضافہ ہوتا ہے یہی ہماری کمائی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں