آہ کوئٹہ
( ریاض کے قلم سے)
تُمہیں پتہ ہے کہ کوئٹہ میں جب سرد موسم کا آغاز ہوتا تو قندھاری ہوائیں تیر کی طرح جسم سے پار ہوتیں، سیون ٹائپ ٹین کی بل کھاتی چھتوں سے بارش اور برف کے قطرے ٹپ ٹپ تہہ در تہہ برفیلی سلاخیں بنا تے، اور جب یہ سلاخیں بڑھتی ہوئ اپنا بوجھ بھی نہ سہار سکتیں تو کٹی شاخ کی طرح چھماکے سے فرش پر ٹوٹ کے گُھنگھرو کے دانوں کی طرح بکھر جاتیں۔ برف کی یہ سلاخیں کُچھ تو اس قدر مضبوط ہوتیں کہ ہم لڑکے بالے ان سے تلوار بازی کا کھیل کھیلتے، اور فریق کی تلوار ٹوٹ جانے پر راجہ پورس کے مقابلے میں سکندرِ اعظم کی سی شان دکھاتے۔ جب گھروں کی چھتوں سے کوئٹہ اسٹوو کے دُخان سے کالے اودے دھوئیں کے بادل پوری وادی کو کمبل کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتے۔ جب گھر کے چھوٹے بڑے کمرے کے بیچ تپائی کے نیچے کوئلے کی انگیٹھی سلگا کے، اوپر کمبل بچھا کے صندلی کا روپ دیتے پھر چاروں طرف بیٹھ کر کمبل کا کونہ خود پر بچھا لیتے اور درمیان میں رکھے چلغوزوں سے کُٹ کُٹ کی آوازیں نکالتے۔ جب تانگوں کے کوچوان گرتی برف سے گھوڑوں کو بچانے کے لئے ان کی کمر پر کمبل کی تہہ بچھاتے، تو ابا اسٹیشن کا رُخ کرتے اور کوئٹہ پسنجر میں انٹر کلاس کا ایک پورشن فیملی کے لئے بُک کرا لیتے۔تاکہ بچوں کو کُچھ عرصہ سردی کی شدت سے بچا سکیں۔
تب مُلک میں کلاس سسٹم پوری طرح اپنا وجود رکھتا تھا۔ فرسٹ کلاس میں سفر کرنا ہر ایرے غیرے کا کام نہ تھا۔ اگر کولپور یا سبّی اسٹیشن پر فرسٹ کلاس کا مسافر پلیٹ فارم پر ٹہلتا تو ٹرین کے باقی مُسافر اس کے آس پاس کھڑے اُسے حسرت سے تکتے۔ سیکنڈ کلاس بھی کُچھ کم نہ تھی اور پھر کھچا کھچ بھری تھرڈ کلاس۔۔ لکڑی کے سخت بینچ۔ بعد میں حکومت نے مڈل کلاس کے لئے ریل میں انٹر کلاس کا تصور دیا، لکڑی کے ان بینچوں پر فوم کے گدے چڑھا کر ماشٹر اور بابو لوگوں کے لئے سفر قدرے آرام دہ بنا دیا۔
کلاس سسٹم کی ایک جھلک سینما ہاؤس میں واضح طور پر نظر آتی۔
ریگل سینما، امداد سینما وغیرہ کی فرسٹ کلاس میں جنٹری ہی ہوتی جن کا تصور گیارہ آنے والی تھرڈ کلاس کے سینما بین کر ہی نہیں سکتے تھے مگر جو لُطف گیارہ آنے کی کلاس میں منہہ میں دو انگلیاں گُھسیڑ کر سیٹیاں بجانے کا تھا وہ بکس میں، یا فرسٹ کلاس میں کہاں۔ وہاں تو معزز خواتین و حضرات بیٹھتے تھے جو آپس میں بھی سرگوشی کے سے انداز میں بات کرتے۔ بوتل، مونگ پھلی اور سیپریٹ چائے بھی سیٹ پر منگواتے جب کہ گیارہ آنے والے ٹی سٹال پر دھکم پیل میں مصروف ہوتے، یا باہر ریڑھی سے مونگ پھلی خریدتے اور انٹرول ختم ہونے پر اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے اپنی سیٹ کی بجائے کسی اور کی جھولی میں جا بیٹھتے۔
یہ کلاس سسٹم کیسے ختم ہوا؟ اچھا ہوا یا بُرا ہوا؟ اتنا جانتے ہیں کہ اس سسٹم کے ساتھ ہی اچھے بُرے کی تمیز ختم ہو گئ، وضع دار لوگ گوشہ نشین ہو گئے۔ راتوں رات امیر بننے کی دُھن میں حرام اور حلال کا فرق جاتا رہا۔ کل کے معمولی اہل کار عوامی نمائندے بن گئے۔ روپے آنے کی بجائے ملین میں بات ہونے لگی۔ وہ پُرانا کوئٹہ، جو ایک دوسرے کے دُکھ درد کا سانجھی تھا، ہمدرد تھا، کہیں کونے میں جا چُھپا جس کی ہلکی ہلکی سسکیاں آج بھی کبھی کبھی اونچے اونچے پلازوں کی تہہ سے سُنائی دیتی ہیں۔
آہ کوئٹہ!
( کوئٹہ ۲۳ جولائ ۲۰۲۰)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں