جمعہ، 8 مارچ، 2024

فارس مغل کے افسانوی مجموعے ’‘ آخری    لفظ ”کا ایک جائزہ                 

سیمیں کرن

   باشکریہ ہم سب                          

اکرم کنجاہی اپنی کتاب ’‘ پس جدیدیت لہجے اور اسلوب ”میں رقم طراز ہیں :ایک زمانہ تھا کہ تخلیق کار خود کو کسی نہ کسی تحریک سے وابستہ کر لیتے تھے یا پھر کسی رجحان کے پابند ہو جاتے تھے۔ پس جدیدیت کسی تحریک یا رجحان کو نہ تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی انھیں رد کرتی ہے۔ یہ ایک آزاد فکری رویہ ہے۔ فارس مغل کے افسانوی مجموعے ’‘ آخری لفظ“ کا مطالعہ اس تعریف پہ پورا اترتا ہے۔

پیش لفظ میں فارس لکھتے ہیں ’‘ مرے افسانے دلچسپ ہیں کہ انہیں میں نہیں جانتا، یہ تو بس اپنے ماحول کی پیداوار ہیں۔ مرے نزدیک افسانہ لکھنا ساون کے اندھوں کو موسم زرد یاد دلانے کا عمل ہے ”۔

اس مجموعے میں پچیس افسانے اور افسانچے شامل ہیں۔ یہ فارس مغل کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جبکہ اس سے پہلے ان کے دو ناول ’‘ ہمجان ”اور ’‘ سو سال وفا“ اور ایک شعری مجموعہ مقبولیت کی سند پا چکے ہیں گویا فارس تمام اصناف میں اپنے پر پھیلا چکے ہیں مگر فارس کی کتابوں کے مطالعے کے بعد یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پہ ناول نگار ہیں جہاں ان کا ہنر نکھر کر سامنے آتا ہے مگر ایک اچھے شاعر کے طور پہ وہ ایک مصور کی طرح جملے کو جیسے تصویر کرتے ہیں وہ فارس مغل کا اسلوب بیانیہ ہے۔ راست بیانیے میں لکھے یہ افسانے موثر ہیں موضوعات میں تنوع ہے اور مختلف موضوعات پہ طبع آزمائی گئی ہے۔ یہ افسانے شعوری رو کی کاوش ہیں۔ سادہ بیانیہ ہے جس میں علامتی الجھاؤ نہیں ہے۔ فارس کے افسانے یک تاثری اور واقعاتی رنگ لیے ہوئے ہیں جن میں داستان کا سا گمان ہوتا ہے۔

آئیے ان کے مختلف افسانوں پہ بات کرتے ہیں :

’‘ آخری لفظ ”ٹائیٹل افسانہ ہے اور اس مجموعے کا گیارہواں افسانہ ہے جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس میں تجسس کا عنصر موجود ہے، کہانی کی بنت خوبصورت ہے جو ذہن و دل پہ گہرا اثر چھوڑتی ہے اسے پڑھ کر ایسے لگا جیسے کسی انگلش کہانی کا عمدہ ترجمہ ہو۔

’‘ للی ”جنگ عظیم دوئم کے پس منظر میں للی جیسے جاندار کردار کو لیے ایک زندہ حکایت بیان کرتا افسانہ ہے۔

’‘ آسیب آب ”صحرا اور اس سے ملحقہ شہروں میں پانی کے مسائل اجاگر کرتا ایک موثر افسانہ ہے۔

’‘ ننگی خاموشی ”موجودہ نظام تعلیم پہ سرکاری سکولوں کی زبوں حالی اور بڑھتے ہوئے لواطت کے حادثات پہ ایک پراثر طمانچہ ہے۔

’‘ پرفیوم ”کی کرافٹنگ میں بہتری کی بہت سی گنجائش تھی۔

’‘ من چاہا لمس ”ایک معذور انسان کے جنسی جذبات و احساسات کو لے کر ایک پرتاثیر افسانہ ہے یہ فارس کا مرغوب موضوع ہے اور یہ ان کے ناولز میں بھی نظر آتا ہے۔

’‘ سکیچ ”سیاستدان اور بیوروکریسی کے درمیان گہرے تعلق کی وضاحت کرتا ایک خوبصورت افسانہ ہے جسے خواب کی ماورائی زمین گہرا تاثر دیتی ہے۔

’‘ زرینہ مدینہ ”زرینہ جیسے سالک کی قلبی واردات اور شوق لگن کی کہانی بیان کرتا ہے وہیں طبقاتی فرق پہ بھی گہری چوٹ کرتا ہے جہاں امرا ءسیر و سیاحت کے شوق میں حج و عمرہ جیسی عبادت کو نمائش بنا لیتے ہیں وہیں زرینہ جیسا محروم طبقہ آرزو میں تڑپتا رہتا ہے۔

’‘ شاہ بیگم اور غلام ”مقبوضہ ہندوستان میں پلٹی نوآبادیاتی سوچ اور پاکستان میں پھیلی عسکریت پسندی اور سقوط ڈھاکہ کے منظر میں لکھا گیا افسانہ ہے جہاں شاہ بیگم اور غلام کے کردار چہرہ بدلتے رہتے ہیں۔

’‘ گل جان ”افغان مہاجرین کے دکھ بیان کرتا ایک عمدہ افسانہ ہے۔ افغان جنگ کے بعد یہاں بسنے والے مہاجرین کی ہجرت کے دکھ و عذاب بڑے موثر انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔

’‘ مار خور کا بچہ ”طبقاتی کشمکش کا فسانہ سناٹا ہے اور اس کی حساس بنت طمانچے جیسی محسوس ہوتی ہے۔

فارس نے اپنے افسانوی مجموعے میں موضوعات کے تنوع پہ توجہ دی ہے اور خود پہ کوئی چھاپ نہیں لگنے دی۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ یک تاثری روایت سے ہٹ کر آگے جدید افسانے کو سمجھتے ہوئے آنے والے وقتوں کا اہم افسانہ نگار ثابت ہوں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot