لوچستان جیسے قبائلی معاشرے میں سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی اعلیٰ تعلیم کی خواہشمند خواتین کیلئے ایک امید کی کرن ہے جو صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کیلئے مخصوص ہے جہاں وہ بلا شرکت غیرے اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اساتذہ کی زیر نگرانی اپنی اعلیٰ تعلیم کا خواب پورا کرسکتی ہیں۔ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کا قیام 2004 میں عمل میں لایا گیا اس وقت جامعہ میں کل 60 طالبات تھیں اب جامعہ میں ہزاروں طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہورہی ہیں اور ہر سال سیکڑوں طالبات یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر مختلف شعبوں ین بلوچستان بھر کا نام روشن کر رہی ہیں اور ثابت کر رہی ہیں کہ بلوچستان کی
خواتین کسی بھی شعبے میں مردوں سے کم نہیں صرف انہیں مواقع دینے کی ضرورت ہے اور اس میں سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کا نمایاں کردار ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جامعہ نے اپنے قیام سے لیکر اب ہر دور میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور دن بدن ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ مگر جامعہ کی ترقی کا جب بھی ذکر کیاجائے جائیگا سابق وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر ساجدہ نورین کی خدمات کا ذکر ہمیشہ کیاجائے گا۔ انہوں نے جامعہ کی ترقی اور طالبات کو پرسکون ماحول میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ ان کے دور میں جامعہ میں بے شمار اصلاحات لائی گئیں جس سے جامعہ نے نمایاں ترقی حاصل کی ۔ پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین نے جامعہ میں اسٹریٹجک وژن اور تعلیمی منصوبوں کی ترقی ہو یا کوالٹی اشورینس کے ڈائریکٹوریٹ کا قیام ہر شعبہ میں بھرپور کام کیا اور جامعہ ملک بھر کی نامور جامعات کی صف میں لا کھڑا کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین بطور وائس چانسلر جامعہ میں جو اصلاحات کیں و درج ذیل ہیں۔
گریجویٹ اسٹڈیز آفس اور یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹر کا قیام،دو تحقیقی جرائد کا آغاز کیا HESSA پروجیکٹ کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کو مضبوط بنانے کی سرگرمیاں کا آغاز کیا، فارمیسی اور تعلیم کے محکموں سمیت پیشہ ورانہ ڈگری پروگرامز کی منظوری دی،ایم فل اور تین پی ایچ ڈی پروگرامز کے لیے 2013 سے بغیر این او سی کےچلائے جانے والے محکموں کے لیے ایچ ای سی سے بارہ این او سیز حاصل کیں جس سے ایچ ای سی کی جانب سے ڈگری کی شناخت کا طویل انتظار کیا جا رہا تھا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے ماہانہ بنیادوں پر ASRAB کی میٹنگ کا باقاعدہ انعقادشروع کروایا، ڈیپارٹمنٹل داخلہ کمیٹیوں اور ڈیپارٹمنٹل ریسرچ کمیٹیاں تشکیل دیں ہر سال کے لیے بورڈ آف اسٹڈیز کے اجلاس کا انعقاد کروایا۔ تعلیمی اور انتظامی مسائل کو حل کرنے کے لیے وقت پر تمام قانونی اداروں کے اجلاسوں کا انعقاد شروع کروایا مختلف یونیورسٹیز کے ساتھ طلباء کی بہتری کے لیے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے۔ NAVTECH اور دیگر منصوبوں کے کامیاب نفاذ میں اہم کردار ادا کیا پاک کوریا نیوٹریشن سینٹر (PKNC) کے کامیاب نفاذ سمیت فیمیل بزنس انکیوبیشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا۔ فوڈ اینڈ نیوٹریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا۔ سکول آف پروفیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ فیشن ڈیزائننگ کا قیام عمل میں لایا. HESSA پروجیکٹ کے ذریعےایڈمن اور اکیڈمک سٹاف کی کامیاب تربیت قومی اور بین
الاقوامی سطح پر HRکی ترقی کے مواقع فراہم کئے اور محفوظ زچگی کارنر کا قیام بھی عمل میں لایا۔ اپنے دور میں انہوں نےقومی اور بین الاقوامی تربیت، سیمینار اور تربیت کا انعقاد مختلف مواقع پر باقاعدگی سے کروایا۔ یونیورسٹی میں سب سے زیادہ تحقیقی اشاعتیں انہی کے دور میں ہوئیں سلیکشن بورڈ کے ذریعے میرٹ پر پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی تقرری عمل میں لائی گئی۔ چائنا سٹڈی سنٹر کا قیام عمل میں لایاگیا۔طلباء کے لیے وظائف اور انٹرن شپ کے مواقعوں کی فراہمی میں پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین کا اہم کردار تھا۔ محفوظ ماحول کے لیے اینٹی ہراسمنٹ سیل کا قیام بھی انہی کے دور میں عمل میں لایاگیا۔معیاری تعلیم اور جدید تحقیق کی وجہ سے طلباء کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا اور اب جامعہ میں 8 ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انہوں نے بلوچستان کی خواتین کو سازگار ماحول فراہم کیا جس سے طالبات اور والدین میں اعتماد کی فضا بحال ہوئی۔ انہوں نے اپنے دور میں انتظامی سطح پر بھی اصلاحات کیں اور تنظیمی ڈھانچے کو ہموار کیا پروموشن کے راستے بنانے کے بعد انتظامی عملے کی ترقی کی راہ ہموار ہوئی ۔ مین اور سب کیمپس میں سمارٹ کلاس رومز کا قیام بھی عمل میں لایا۔ ڈیپارٹمنٹلائزیشن کا تعارف (صحیح کام کے لیے صحیح شخص)، بہتر انتظام کے ذریعے وسائل کی نکاسی کو روکنا،ایچ ای سی، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کم فنڈنگ کے باوجود اچھےمالیاتی انتظام کی وجہ سے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جو کہ نہایت ہی مشکل عمل تھا مگر انہوں نے اپنے دور میں جہاں باقی تمام جامعات کے ملازمین تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر سراپا احتجاج تھے وہیں ایس بی کے ویمن یونیورسٹی کے ملازمین کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی یقینی بنائی۔ ذیلی کیمپسز کیلئے زمین کے حصول، ڈیزائن کی منظوری اور دیگر مسائل کے
حل کے بعد پشین اورخضدار سب کیمپسز کی تعمیر پر سول ورک شروع کروایااور HEC سے سب کیمپس نوشکی کی تعمیر کے لیے ڈیزائن کی منظوری بھی لی۔ سول ورکس کے منصوبوں کے لیے اسٹیئرنگ کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں لائی ۔ تمام محکموں کے لیے ایس او پیز کی تیاری میں بھی انکا نمایاں کردار رہا۔ کام کی تفصیل کی دوبارہ وضاحت کا نظام بھی انہوں نے جامعہ میں متعارف کروایا۔ طالبات کیلئے بسوں کی بطور عطیہ خریداری یقینی بنائی جس سے دور دراز سے آنے والی سیکڑوں طالبات کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوئے سیکیورٹی سسٹم میں بہتری اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب بھی انہی کے دور میں عمل میں لائی گئی۔ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ سیل کا اور یونیورسٹی انہانسمنٹ سیل کا قیام عمل میں لایا۔کھیلوں کے میدان میں بھی طالبات کو بھرپور مواقع فراہم کرنے میں بھی انکا نمایاں کردار تھا اورطالبات نے قومی سطح کے مختلف کھیلوں کے ایونٹس میں حصہ لیکر نمایاں پوزیشنیںزحاصل کیں اور جامعہ نے پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین کے ہی دور میں قومی کھیلوں کی مشترکہ میزبانی بھی کی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین کا ٹینور
اپنے آپ میں انتہائی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے چونکہ جامعہ میں موجود ایک مخصوص لابی کی ہمیشہ سے اجارہ داری رہی تھی جوکہ پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین کا بحیثیت وائس چانسلر منتخب ہونے کے بعد ختم ہو گئی تھی لہٰذا اُس متذکرہ لابی کی جانب سے سابق وائس چانسلر کیخلاف تمام اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردیئے گئے جن میں سرفہرست جامعہ میں ناجائز مطالبات کی آڑ میں احتجاجی دھرنے وغیرہ شامل ہیں جبکہ جہاں سابق وائس چانسلر کی جانب سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سمیت تمام اُن متعلقہ محکموں و اداروں جن کا پبلک سیکٹر جامعات میں کردار ہوتا ہے کی جانب سے انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ نا دینے سمیت عدم تعاون کی شکایت کرتی رہی ہیں، وہی سابق وائس چانسلر کی جانب سے جامعہ میں مالی بدعنوانی کے انسداد کے عمل کی حوصلہ افزائی کے صورت میں جامعہ میں موجود انتشاری عناصر کی جانب سے ناصرف سابق وائس چانسلر کیخلاف غیر قانونی ایسوسی ایشن کی تشکیل کی صورت میں ایک محاز کھڑا کیا گیا جیسے بعدازاں اعلیٰ حکام کی بھی پشت پناہی حاصل رہی تھی بلکہ دیگر ناجائز حربوں کے استعمال سمیت سیاسی مداخلت کے ذریعے بھی سابق وائس چانسلر کو احتساب کے عمل سے دستبردار ہونے کیلئے بلیک میل کیا جاتا رہا حالانکہ ایک ڈرامائی انداز میں و انتقامی کارروائی کے ذریعے بلآخر سابق وائس چانسلر کو مٹھی بھر سازشی عناصر کی ایماء پر ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا لیکن سابق وائس چانسلر نے تعلیم نسواں اور صوبے کی واحد خواتین کی جامعہ کے حوالے سے کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے ناصرف انکار کیا بلکہ میریٹ اور تعلیم نسواں کے فروغ کیلئے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتی رہی جس کا اعتراف ہمیشہ صوبے کی ہر پڑھی لکھی خاتون کریگی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں