بلوچستان میں واش سیکٹر کی بہتری کیلئے عملی اقدامات کرناہوں گے!
دیگرشعبوں کی طرح بلوچستان میں صحت وصفائی کاشعبہ انتہائی زبوں حالی کاشکارہیں اورسالانہ لاکھوں روپے کے مالیاتی خراجات کے بعدبھی مثبت تبدیلی نظرنہیں آرہی، جس کی وجہ سے عام لوگ زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔دورجدیدمیں جہاں دیناترقی کررہی ہے وہیں پہ ہمارے یہاں علاج معالجہ کیلئے بہترین ہسپتال اورپڑھنے کیلئے اسکول نہیں ہیں جہاں ہسپتال اوراسکول بنائے گئے ہیں وہاں پرڈاکٹراوراساتذہ ڈیوٹی نہیں دیتے۔
زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے انسانی نشوونمااوربہترین صحت ضروری ہے جس کیلئے ہمیں اپنے ماحول کوصاف ستھرارکھنے کیلئے جدوجہدکرناہوگا۔ حدیث نبویؐ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، بحیثیت مسلمان ہمیں خود اوراپنے آس پاس کے ماحول کوصاف ستھرارکھنے کیلئے ذمہ داری کامظاہر کرناہوگا۔
کوئٹہ بلوچستان کادارالحکومت ہے مگرحکومتی عدم توجہی اورمنصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ملک کے دیگرشہروں کی نسبت کوئٹہ میں ترقی کی رفتارانتہائی سست ہے۔
آبادی میں اضافے کیساتھ یہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی میں متعلقہ ادارے بری طرح ناکام دیکھائی دیتے ہیں 2023کی مردم شماری کے مطابق کوئٹہ کی آبادی 25لاکھ95ہزار4سو92نفوس پرمشتمل ہے۔ اقتصادی سروے 2014-15کے مطابق ملکی آبادی کی اکثریت اپنی پیاس بجھانے کے لیے غیرمحفوظ اور آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک بھر میں پانی بیکٹریا (68 فیصد)، آرسینک یا سنکھیا (24 فیصد)، نائٹریٹ (13 فیصد) اور فلورائیڈ (5 فیصد) سے آلودہ ہے جو تشویشناک ہے۔
شہرمیں صفائی ستھرائی کےساتھ ساتھ دیگرانتظامات کرنے والا ادارہ میٹروپولیٹن کارپوریشن بدترین بدانتظامی کاشکار ہوچکا ہے جس سے شہرمیں نکاسی آب اورصفائی کی صورتحال مخدوش ہوچکی ہے۔
کوئٹہ شہر میں واش سیکٹرکے حوالے سے کسی نے کام نہیں کیااوردیگرشعبوں کی طرح اس اہم معاملے کو نظراندازکردیاگیاشہر ی علاقوں میں لیٹرین سے انسانی فضلے کوسیوریج کی نالیوں میں چھوڑدیاجاتا ہے، اورجب نالیاں بندہوجائیں تویہ مضرصحت فضلہ گندے پانی کیساتھ گلی کوچوں سے بہتاہواگھروں کےصحن تک پہنچ جاتا ہے جس سے لوگوں میں موذی امراض پھیل رہے ہیں۔لوگوں میں شعوروآگاہی کے فقدان کی وجہ سے دیہی علاقوں میں صورتحال اس سے زیادہ خطرناک ہے گاؤں میں لوگ کھلے میدان میں پاخانہ کرکے اس کو کھلی فضامیں چھوڑ کر ماحول کومزیدخراب کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑتے۔
دنیابھرمیں واش رومزسے انسانی فضلے کوٹھکانے لگانے کیلئے بہترین نظام رائج کیاگیا ہے جہاں پرواش رومز کے ساتھ سیپٹک ٹینک بنائے گئے ہیں اورجب یہ بھرجائیں تووہاں سے کارپوریشن کے باؤزرزکے ذریعے ٹینکوں کوخالی کرکے اس کو تلف کرنے سالڈویسٹ منیجمنٹ کے عمل سے گزارکرکھادکے طورپرقابل استعمال بنایاجاتا ہے۔
یہ ہی نہیں واش رومزسے نکلنے والے پانی کو بھی ضائع ہونے سے بچانے کیلئے اس کو سالڈویسٹ منیجمنٹ اورڈی سلی نیشن کے عمل سے گزارکرزرعت ودیگرمعاملات کوانجام دینے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے۔
مگرہمارے یہاں ان چیزوں پرکوئی توجہ نہیں دی جاتی جس سے صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔یہاں پرروزانہ کارواش سینٹراورزرعی ضرورت کوپوری کرنے کیلئے پینے کے صاف پانی کابے دریغ استعمال کیاجاتا ہے جس سے ہمارے یہاں پانی کے ذخائربھی کم ہورہے ہیں، صورتحال پرقابوپانے کیلئے بروقت اقدامات ہیں کئے گئے تومستقبل میں حالات مزیدخطرناک ہوسکتے ہیں۔
ہرانسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کی بہتری میں اپناکرداراداکرے، پینے کے صاف پانی کے ضیاع کوروکنے اورسینی ٹیشن کے نظام کی بہتری کیلئے ہم سب کو آگے آکراپنی ذمہ داریاں نبھاناہوگا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے گھراورمحلے سے ابتداء کریں، آئیں اپنے لوگوں کویہ شعوردیں کہ وہ باتھ روم کے فضلے کوسیوریج کی نالیوں میں چھوڑنے کی بجائے سیپٹک ٹینک بنائیں تاکہ یہ ماحول کوخراب نہ کرے، اس ضمن میں مقامی حکومتوں خصوصاًمیٹروپولیٹن کارپوریشن کارول اہم ہے، صوبائی حکومت اورلوکل گورنمنٹ کاادارہ اس حوالے سے الگ فنڈزمختص کرکے بروقت منصوبہ بندی کرے اورمیٹروپولیٹ کارپوریشن کیلئے صفائی کامزید عملہ تعینات کرکے اپنے باؤزربھی تیاررکھیں تاکہ وہ اس مضرصحت فضلے کوسیپٹک ٹینکوں سے لے جاکرتلف کریں۔
اس حوالے سے سماجی تنظیم ہوپ بلوچستان کے زیراہتمام فریش واٹرایکشن نیٹ ورک ساؤتھ ایشیاء (FANSA)پاکستان نے کوئٹہ میں منصوبہ شروع کیاہے جس کے تحت وہ مقامی حکومتوں اورسول سوسائٹی کے استعدادکارمیں اضافہ کرنے کیلئے کام اغاز کیا ہے اس ضمن میں مختلف آگاہی سیشن منعقدکئے جارہے ہیں، منصوبے کے تحت واش سیکٹرپلان کے حوالے سے مقامی حکومتوں کی بھرپورمعاونت کرکےانہیں اس قابل بنایاجائے گا کہ وہ ان معاملات کوبہتراندازمیں چلاسکیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں